یورپی پارلیمان کا2035 تک پیٹرول اورڈیزل گاڑیوں پرپابندی عاید کرنے کا فیصلہ
یورپی پارلیمان نے 2035 تک کاربن خارج کرنے والی پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کی نئی فروخت پر پابندی کی منظوری دے دی ہے۔یورپی یونین کے رکن ممالک پہلے ہی اس قانون سازی کی منظوری دے چکے ہیں اور اب پارلیمان کے سب سے بڑے گروپ قدامت پسند ارکان کی مخالفت کے باوجود اسے باضابطہ طور پر قانون کی شکل دے دی ہے۔
اسٹراسبرگ میں قائم یورپی اسمبلی میں اس قانون کو 279 کے مقابلے میں 340 ووٹوں سے منظورکیا گیا ہے جبکہ 21 ارکان رائے شماری کے وقت غیرحاضر رہے ہیں۔بل کے حامیوں نے دلیل دی تھی کہ اس سے یورپی کارساز کمپنیوں کو ایک واضح ٹائم فریم ملے گا جس میں پیداوارکو صفر اخراج والی الیکٹرک گاڑیوں میں تبدیل کیا جاسکے گا اوراس کے نتیجے میں یورپی یونین کے 2050 تک ’’موسمیاتی غیرجانبدار‘‘معیشت بننے کے پرجوش منصوبہ کی حمایت ہوگی، جس میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج صفر ہوگا۔
اجلاس میں یورپی یونین کے نائب صدرفرانس سمرمینز نے پارلیمان کے ارکان کوخبردار کیا:’’میں آپ کوباور کراناچاہتا ہوں کہ گذشتہ سال سے اس سال کے آخر تک چین برقی کاروں کے 80 ماڈل بین الاقوامی مارکیٹ میں لے آئے گا‘‘۔انھوں نے کہا کہ ’’یہ (برقی) اچھی گاڑیاں ہیں۔یہ زیادہ سے زیادہ سستی ہوں گی اور ہمیں اس میں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس ضروری صنعت کو باہر کے لوگوں کے لیے نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں‘‘۔
لیکن مخالفین کا کہنا ہے کہ صنعت دھواں چھوڑنے والی انجن گاڑیوں کی پیداوارمیں اس طرح کی ڈرامائی کٹوتی کے لیے تیار نہیں ہے۔نیزلاکھوں ملازمتیں خطرے میں ہیں۔وسطی دائیں بازو کی یورپی پیپلزپارٹی کے رکن ایم ای پی جینز گیسیکی کا کہنا تھا کہ ’’مارکیٹ کو یہ فیصلہ کرنے دیں کہ ہمارے اہداف تک پہنچنے کے لیے کون سی ٹیکنالوجی بہترین ہے‘‘۔
گیسکی نے اعلان کیا کہ گرین اورسوشلسٹ ایم ای پیز کی جانب سے بجلی سے چلنے والی گاڑیاں سستی ہونے کی دلیلیں توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت کے بحران کی وجہ سے ’’باطل‘‘ ثابت ہوگئی ہیں۔انھوں نے یورپی کمیشن پرزوردیا کہ وہ ٹرکوں اور بسوں پر بھی پابندی میں توسیع کے منصوبے پر نظرثانی کرے۔جرمنی میں چھے لاکھ افراد آئی سی ای کے پیداواری یونٹوں میں کام کرتے ہیں اور ان کی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ برقی کاروں کی بیٹریاں امریکاجیسے یورپ کے حریف ممالک میں یعنی بیرون ملک تیار کی جاتی ہیں لیکن ٹمرمینز نے دلیل دی کہ یورپی یونین کی حمایت یافتہ سرمایہ کاری کی بدولت یورپی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔