ہنسانے والا‘رُلاکر چلا گیا!
(مزاح نگار مجتبیٰ حسین کی رحلت پر)
آج کورونا وباءنے ملک الموت کی بھیانک شکل اختیار کرلی ہے ‘ملک کا ہر شخص موت کے خوفناک سایہ میںزندگی گزاررہا ہے۔ہر شخص کوہرپل موت کاکھٹکا لگارہتاہے ۔ ایسے قیامت خیز حالات میں اردو کے نابغہ روزگار ادیبوں کی موت کی خبریں متواترچلی آرہی ہیں ۔ ایک خبر غم آتی ہے تو دل ڈوبنے لگتاہے پھر ابھرنے بھی نہیں پاتا کہ دوسری خبر غم جلتاہو ا تیربن کر دل میں پیوست ہو جاتی ہے ۔ 9 مئی 2020 کواردو ادب کے دبستان مالیگاوں(مہاراشٹر) سے افسوسناک خبر آئی تھی کہ معروف ادیب‘فکشن نگار ‘ادبی صحابی احمدعثمانی (مدیر ماہنامہ بیباک ) نہیں رہے ۔ یہ خبررات دیر گئے ملی تھی کہ صبح سویرے مالیگاوں ہی سے ایک دوسری بُری خبر آئی کہ ترقی پسند ادیب ‘ افسانہ نگار‘صحافی اورمعمر رہنما ہارون بی۔اے اس دار فانی سے کوچ کرچکے ۔ دونوں شخصیات نے اردو بان و ادب کی سالہاسال بے لوث خدمات انجام دیں ۔ مہاراشٹر کی ادبی تاریخ ان دونوں ادیبوں اور صحافیوں کے تذکرے کے بغیر نامکمل سمجھی جائے گی ۔اردو ادبی دنیا ان دونوں کے سوگ مےںڈوبی ہوئی تھی کہ آج 27مئی 2020 کو حیدر آباد (دکن) سے غمگین خبر آئی کہ عالمی شہرت یافتہ مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین بھی نہیں رہے ۔گویا بچھڑے سبھی باری باری!
احمدعثمانی اور ہارون بی ۔اے سے راقم الحروف کے ذاتی روابط تھے ۔میں کبھی کبھی ان دونوں سے خواہ مخواہ ملاقات کےلئے مالیگاوں چلا جایاکرتا تھا۔ لیکن مجتبیٰ حسین سے شخصی مراسم کبھی نہیں رہے تھے ۔وہ عمر میں مجھ سے 20 سال بڑے تھے ۔ البتہ ایک مرتبہ سن1981ءمیں میں دہلی مےں اُن سے ملا تھا ۔ اس وقت وہ NCERT کے شعبہ اشاعت میں برسر خدمت تھے ۔ یہ ملاقات بھی ناندیر کے معروف شاعر محمود عشقی مرحوم کے توسط سے ہوئی تھی ۔ محمود عشقی جدید لب ولہجہ کے شاعر تھے اور ہندو پاک کے معیاری ادبی پرچوں میں مسلسل چھپاکرتے تھے ۔
موجودہ مراٹھواڑہ کاضلع عثمان آباد بڑا مردم خیز علاقہ رہاہے ۔ 17ستمبر 1948ءسے قبل یہ ہندوستان کی سب سے بڑی مسلم ریاست حیدرآباد کا تعلقہ رہاہے ۔ ریاست حیدر آباد کے ہندوستان میں ضم ہوجانے کے بعد ملک میں لسانی بنیادوں پرریاستوں کی تشکیل جدید عمل میں آئی تو عثمان آباد مہاراشٹر کے حصے میں آیا ۔ اور ضلع کہلایا ۔ مولوی احمدحسین کے والد بزرگوار محمدحسین اسی عثمان آباد کے متوطن تھے ۔محمدحسین ‘ مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے دادا تھے اور مولوی احمد حسین والد ۔مولوی احمدحسین عثمان آباد تحصیل میں ملازم سرکار تھے ۔ملازمت کے سلسلے میں ان کا تبادلہ گلبرگہ ہواتھاتو وہ اپنے خاندان کے ساتھ گلبرگہ منتقل ہوگئے تھے ۔چنانچہ مجتبیٰ حسین ‘گلبرگہ کی تحصیل چنچولی میں 15جولائی 1936ءکو پیدا ہوئے ۔ مجتبیٰ حسین کو آٹھ بھائی اور ایک بہن تھی ۔ سب سے بڑے بھائی مشہورصحافی محبوب حسین جگر تھے ۔انھوں نے شادی نہیں کی تھی اور مجرد تھے ۔ البتہ روزنامہ ”سیاست ‘ اور صحافت کواپنا اوڑھنابچھونا بنالیاتھا ۔ دوسرے بھائی مشہور ناول نگار انشائیہ نگار اور صحافی ابراہیم جلیس تھے ۔ 1947ءمیں تقسیم ہند کے بعد کراچی پاکستان چلے گئے تھے ۔ ریاست حیدر آباد کے سقوط کے بعد ریاست میں بھارت کی فوج نے مسلمانوں پرظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے ۔جسے بھارتی حکومت نے پولس ایکشن کا نام دیاتھا دراصل یہ فوجی ایکشن تھا ۔حیدر آباد کے پولس ایکشن(فوجی ایکشن) کے حالات کوابراہیم جلیس نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ”دوملک ایک کہانی “ میں رپورتاژ کی شکل میں بے باکانہ انداز میں پیش کیا تھا ۔یہ رپورتاژ بے حد مقبول ہوئی تھی جس پر بھارت کی حکومت نے پابندی لگاکرتمام نسخے ضبط کرلئے تھے ۔ ابراہیم جلیس پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی) کے ترجمان کراچی سے شائع ہونے والے اردوروزنا مہ ”مساوات “ کے ایڈیٹر بنائے گئے تھے ۔ اس وقت پاکستان میںفوجی ڈکٹیٹر صدر جنرل شیخ محمدضیاءالحق کااقتدار تھا ۔4اپریل 1979 میں ضیا الحق نے پاکستان کے منتخبہ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی پرلٹکادیاتھا ۔ اور پاکستان کے بلا شرکت غیرے خو دساکتہ صدربن بیٹھے تھے ۔ابراہیم جلیس ابتداءہی سے ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے ۔پاکستان جانے کے بعد بھی انھوں نے اپنے نظریات سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ اس لئے جماعت اسلامی پاکستان کے کٹھ پتلی صدر ضیاءالحق نے ابراہیم جلیس پراپناشکنجہ کسنا شروع کردیاتھا ۔حکومت کے جبر وستم کانتیجہ تھا کہ جلیس ہمیشہ کیلئے ذہنی تناﺅ میں رہنے لگے تھے ۔ اسی عرصہ میں ایک دن اُن کے دماغ کی شیریانیںپھٹ جانے سے ان کی موت ہوگئی تھی ۔ جلیس© نے ادبی دنیا میں ایک حقیقت پسند صحافی اور ادیب کی حیثیت سے بڑانام کمایا ۔یہ سب بیان کرنے کامقصد صرف اتنا ہے کہ عثمان آباد کے ایک متوسط خاندان نے اردو زبان ‘ادب اور صحافت کوتین بڑے نام دئےے ۔جو ایک ریکارڈ ہے ۔آ ج حیدر آباد سے یہ خبر غم آئی کہ مجتبیٰ حسین بھی نہیں رہے ۔یقینا یہ خبراردو والوںپربجلی بن کرگری ہوگی کیونکہ مجتبیٰ حسین عالمی شہر ت یافتہ طنز ومزاح نگاراور ہردلعزیز شخص تھے ۔ ان کا انتقال اردوطنز و مزاح نگاری کے ایک زرین دور کاخاتمہ ہے ۔ اردو میں اوربھی مزاح نگار پیداہوں گے لیکن مجتبیٰ حسین جیسا پیدا نہیں ہوگا ۔
مجتبیٰ حسین کی ابتدائی تعلیم گلبرگہ میں ہوئی ۔ 17سال کی عمر میں 1953ءمیں انٹرمیڈیٹ کالج گلبرگہ سے انٹرنس پاس کیا ۔ 1956 ءمیںعثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد سے بی ۔اے ۔ اور پبلک ایڈمنسٹریشن کیا۔اس طرح وہ عثمانین کہلائے ۔ 1962 میںحکومت آندھراپردیش کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں ملازمت مل گئی ۔ 1962تا 1972 سیاست حیدر آباد کے خصوصی کالم ”شیشہ و تیشہ“ میں کوہِ پیما‘ اس فرضی نام سے لکھتے رہے ۔ اس کالم نے اتنی مقبولیت اختیارکرلی تھی کہ قارئین”سیاست “خریدنے کے بعد خبروں کی سرخیوں کے بجائے ”شیشہ و تیشہ“ کوپڑھاکرتے تھے ۔ پھر انھوں نے 1964 میںماہنامہ ” صبا “حیدر آباد میں ”غالب کے طرفدار نہیں “ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا جو بے حد معروف و مقبو ل ہوا ۔ یہ دور ترقی پسند تحریک کا آخری دور تھا ۔ محبوب حسین جگر ‘ ابراہیم جلیس اور ایڈیٹر سیاست عابد علی خان خود ترقی پسند تھے لیکن مجتبیٰ حسین کبھی بھی ترقی پسند تحریک کے ساتھ نہیں رہے یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں پرکوئی لیبل نہیں لگااور یہ ہر مکتبہ فکر کے قارئین کومتاثر کرتی تھیں۔حکومت ہند نے اردو زبان کی ترقی و ترویج کےلئے آئی ۔کے ۔گجرال کی صدارت میں گجرال کمیٹی قائم کی تھی ‘ مجتبیٰ حسین اس کے ممبر نامزد کئے گئے تھے ۔ انھوں نے 1974 میں مرکزی حکومت کے محکمہ NCERT کے شعبہ اشاعت میں بھی خدمات انجام دیں ۔ انھیں کئی قومی و صوبائی سطح کے ایوارڈ سے نوازاگیا ۔ 2007ء میں پدم شری سے سرفراز ہوئے ۔غالب ایوارڈ‘ساہتیہ رتن ایوارڈ ‘نشان امتیاز ‘کُل ہند مخدوم ادبی ایوارڈ ‘ کُل ہند مہندرسنگھ بیدی ایوارڈ ‘ میرتقی میر ایوارڈ سے بھی نوازاے گئے ۔ ان کے نثری مضامین کے 22سے زائد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔جن میں تکلف برطرف‘قطع کلام ‘قصہ مختصر ‘بہرحال ‘ آدمی نامہ ‘ بالآخر ‘ بالفرض ‘سو وہ بھی ہے آدمی ‘ چہرہ درچہرہ ‘سفر ِ لخت لخت‘آخرکار ‘ہوئے دوست ہم جس کے‘ میرا کالم ‘ قصہ آرام کرسی کا‘ سوئزبینک میں کھاتا ہمارا ‘کافی مقبول ہوئے ۔ ان کا سفر نامہ جاپان چلو ‘جاپان چلو اور سندباد کاسفر نامہ بے حد مشہور ہوئے ۔
مجتبیٰ حسین کی اسلوب نگاری کے بارے میں نقادوں کی مجموعی رائے یہ ہے کہ مجتبیٰ کاانداز بیان بے ساختہ اوربے تکلف ہے ۔ان کے خاکے ہوں یا انشائیے ‘قار ی جب پڑھنا شروع کرتا ہے توپھر بغیر دم لئے انھیں پورا چاٹ جاتا ہے ۔ یہ فنکار کا کمال ہی تو ہے ۔ مجتبیٰ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے وہ جہاں بیٹھ جاتے تھے وہاں لوگوں کاجمگھٹالگ جاتا تھا ۔ اور پھر وہ اپنے مخصوص انداز میں لطیفے سناکر محفل کو قہقہ زار بنادیتے تھے ۔ وہ حاضر جواب ‘خوش مزاج اورباغ و بہار شخصیت کے مالک تھے ۔ خداے بزرگ وبرتر ان کی مغفرت کرے ۔ اُن کی بیوہ ناصرہ رئیس ‘فرزند ہادی حسین ‘مصباح حسین اور دختران راشد ہ رئیس ‘نجیبہ رئیس اوردیگر افراد خاندان کوصبر وتحمل دے ۔
کل میرے لفظوں میں مری جان رہے گی
دُنیا یہ دیکھے گی تو حیران رہے گی
از: محمدتقی
ایڈیٹر انچیف‘روزنامہ”ورق تازہ“
ناندیڑ(مہاراشٹر)موبائل:9325610858
بدھ‘27مئی 2020 ئ