ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے !!! یا کچھ اور وجہ ہے؟؟؟

جب کبھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ برا ہوتا ہے تب متفقہ طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ’’ یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ‘‘۔ کسی طالب علم کے امتحان میں ناکام ہوجانے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی ناکامی کا سبب اس کے اعمال ہیں۔ اگر وہ محنت و لگن سے پڑھائی کرتا تو ناکام نہ ہوتا !ہمارے سامنے کچھ لوگ ایک شخص کوبری طرح پیٹ رہے ہیں ،اور اس کو زدو کوب کئے جانے کی وجہ اس کا مسلمان ہونا ہے تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ یہ اس کے اعمال کا نتیجہ ہے ؟ کیا ایسا کہہ کر آپ اس شخص کی مدد نہیں کریں گے ؟

آزمائش اللہ کی جانب سے ہوتی ہے۔ لیکن ان آزمائشوں کو اگر آپ اپنے غلط اعمال کا نتیجہ تصور کر لیں تو یہ ممکن نہیں کہ آپ ان آزمائشوں سے نجات حاصل کر سکیں ۔ نہ صرف عام مسلمان بلکہ خواص ( علمائ) بھی صاف طور پر کہہ دیتے ہیں کی آج کے سنگین حالات تو ہمارے برے اعمال کے نتیجہ میں برپا ہوئے ہیں ۔ ہمار ا ایمان ابھی کمزور ہے ، ہمیں ایمان پر محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور سامنے بیٹھا مسلمان بھی ان باتوں کو بغیر کوئی عذر کے تسلیم کر لیتا ہے ۔ موجودہ مشکلات کا حل تلاش کرنے اور اس کے پس پردہ اسلام دشمن طاقتوں کا احاطہ کرنے کے بجائے وہ خود کو کوستا رہتا ہے اور مایوس ہوکر لوٹ آتا ہے۔برے اعمال کا نتیجہ یقینا برا ہوتا ہے ، اس سے کسی کو کوئی انکار نہیں۔ لیکن ہر وقت اعمال کو ہی ذمہ دار قرار دے کر ہم اپنے آپ کو بری نہیں کر سکتے۔یقینا ماضی میں دیگر اقوام پر ان کے سرکش اور باغیانہ اعمال حرکتو ں کی وجہ سے عذاب نازل ہوا ہے ۔ جن قوموں کو ذکر اللہ نے قرآن میں کیا ہے وہ قومیں سرکش اور منکر اسلام ہو چکی تھیں ۔ اس کے برعکس آج کے مسلمانوں کی بات کی جائے تو وہ سرکش اور منکر اسلام نہیں ہوئے ہیں ۔ نہ ہی مسلمانوں نے کسی اور کو خدا کا درجہ دیا ہے ۔ وہ آج بھی اللہ کو ہی اپنا رب مانتے ہیں ۔ موجودہ دور کے مسلمانوں کے اعمال ماضی کی سرکش و باغی قوموں کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہیں ۔ ماضی میںجہاں اللہ نے قوم لوط و قوم نوح جیسی قوموں پر عذاب نازل کیا تھا وہیں آج کے مسلمانوں کے اعمال قوم لوط اور قوم نوح جتنے بگڑے ہوئے نہیں ہیں ۔

کیاہم آج بھی اپنے اعمال کو ہی موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیں گے؟ اگر ہم ایسا کررہے ہیں تو ہمیں ان اولیاء اللہ کی زندگی کا بھی مطالعہ کرنا ہوگا جن کی زند گی میں مشکلات و مسائل رونماء ہوئے تھے ۔ حالانکہ یہ لوگ اللہ کے پسندیدہ بندے تھے ، ان کے اعمال اللہ کو راضی کرنے والے تھے لیکن کیا وجہ ہے کہ ان پر بھی مشکلات و پریشانیاں ٹوٹ پڑی تھیں ۔ صحابہ اکرام ؓ کی حیات پر اگر ہم روشنی ڈالے تو ہمیں ان کی پریشانیوں اورتکالیف کا اندازہ ہو گا ۔ بھوکے پیاسے رہ کر دین اسلام کے غلبہ کے لئے میلوں دور تک سفر کرنا ، اپنی جان و مال کے نذرانے پیش کرنا ان کے لئے آسان سی بات ہو گئی تھی ۔ کیوںکہ انہوں ان مصیبتوں اور آزمائشوں کو بطور آزمائش قبول کیا تھا ، بطور عذاب نہیں !گستاخی معاف ہو ،کیا صحابہ اکرام ؓ کے اعمال ٹھیک نہیں تھے جس کی وجہ سے ان پر دنیا بھر کی آزمائشیں ٹوٹ پڑی تھیں؟ سرکار دو عالم حضرت محمد ؐ پر جو آزمائشیں نازل ہوئیں ، ان آزمائشوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ہم ہر مصیبت و پریشانی کا ٹھیکرا اپنے اعمال پر نہیں پھوڑ سکتے ۔ ایسا کرکے ہم دشمن کو باعزت بری کر رہے ہیں ! اس لئے آپ کو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرنا ہو گا کہ موجودہ ابتر حالات آپ کے اعمال کی وجہ ہے یا کچھ اور وجہ ہے؟

از قلم : ارشاد احمد بشارت

Leave a comment