ہشیار:قربانی کے نام پر دو نمبری کا کاروبار

عیدالاضحٰی مسلمانوں کیلیے صرف ایک تقریب نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی تربیت کا موقع ہے۔ جس میں مسلمانوں کو حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے اسباق یاد دلائے جاتے ہیں اور یہ بات باور کرائی جاتی ہیکہ کس طرح صبغتہ اللہ کے رنگ میں ساری دنیا کو رنگنے کیلیے حضرت ابراہیم علیہ السلام بچپن سے لیکر بڑھاپے تک جہدِ مسلسل کرتے رہیں۔ اپنے آبائی دین کو جوتی کی نوک پر ٹھکرایا , اپنے باپ کے کاروبار کو سرِ عام خدا سے بغاوت ٹھہرایا, وقت کے پروہتوں کو عملی تجربہ سے بےوقوف ہونے کا احساس دلایا , بادشاہِ وقت کے سامنے بغیر ڈرے توحیدِ دلبرانہ کا پیغام سنا دیا۔

اس طرح بے شمار قربانیوں کے نتیجے میں ملتِ ابراہیمی وجود میں آئی جس کا مقصد بھی وہی مقصد ہے جس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی شروع سے لیکر ختم تک کار فرما تھی۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عنی المنکر۔ اور اسی مقصد کی یاد دہانی کیلیے ملتِ ابراہیمی کو ۱۰ ذی الحجہ کے دن جانور کی قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ تاکہ مسلمان قربانی کا سبق یاد رکھیں۔

مگر افسوس کہ ملتِ ابراہیمی میں آج ایسے ڈاکو پیدا ہوگئے ہیں جنہوں نے ملتِ ابراہیمی کے مذہبی لباس کو تو اوڑھ لیا , اپنے ناموں کے آگےمستقل دیندار کا ٹیگ تو لگادیا مگر کبھی حقیقی قربانی دینے کیلیے تیار نہیں ہوئے۔ اور اب تو ان ڈاکوؤں کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہیکہ یہ لوگ قربانی کے نام پہ گھوٹالے تک کر رہے ہیں۔ عوام کو دینداری کے پرمنٹ ٹیگ کی بنیاد پر بےوقوف بنایا جارہا ہے اور اجتماعی قربانی کے نام پر اپنے گھر بھرنے کا دو نمبرکا کاروبار عروج پر ہے۔

جی ہاں۔۔۔۔۔۔
اجتماعی قربانی کے نام پر دھوکہ , دجل , فریب اور خود کے گھر بھرنے کا کام ہو رہا ہے اسی لیے آپ سب سے گزارش ہیکہ ایسے معاملات میں ہوشیار رہیں۔ ان دو نمبر کاروبار کرنے والے ڈاکوؤں کی کچھ نشانیاں بتا رہا ہوں اسے ضرور مد نظر رکھیں کیونکہ ایسے کئی لوگ ہیں جو یہ کام کررہے ہیں۔ گزشتہ سال بھی ساؤتھ کے ایک بڑے عالم کا گھوٹالہ بےنقاب ہوا تھا کہ کس طرح سالوں سے اجتماعی قربانی کے نام پر لوگوں سے پیسے جمع کرتے تھے قربانی تو نہ ہوئی مگر انکے گھر کروڑوں روپے ضرور جمع ہوگئے۔

قربانی کے نام پر لوگوں کو بےوقوف بنانے اور پیسہ جمع کرنے کا کاروبار کچھ اس طرح ہو رہا ہیکہ آج کل ہر ایرا غیرا اجتماعی قربانی کا نظم کرنے والا بن بیٹھا ہے۔ اور لوگوں سے اس بات پر کہ انکا گوشت غریبوں میں تقسیم کیا جائے گا پیسہ وصول رہا ہے۔ اور چونکہ حصے بھی سستے میں مل رہے ہیں اسی لیے لوگ بھی بے دھڑک پیسہ دے رہے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے اجتماعی قربانیوں کا یہ کام بڑی ذمہ داری کے ساتھ جماعت اسلامی اور چند بڑے مدارس ہی کیا کرتے تھے اور اکثر گوشت بھی حصہ دار کو ہی دے دیا جاتا تھا۔

اب ہو یہ رہا ہیکہ کچھ لوگ 1500 , 1600 یا 2500 میں حصہ نکال رہے ہیں اور اس کے اشتہار بنا رہے ہیں کہ آپ کا حصہ غریبوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ لوگ بھی بےتحاشا ایسے لوگوں سے حصے خرید رہے ہیں کہ سستے میں فرض ادا ہورہا ہے۔ مگر آپ خود ذرا غور کریں۔ قربانی کے دنوں میں جانوروں کی قیمت آسمان چڑھ جاتی ہے۔ پھر اتنے سستے میں حصہ دیکر جانور کی کل قیمت کتنی سستی ہوگی اور اتنا سستا جانور یہ لوگ کہاں سے لائے؟؟۔ابھی ایک معروف ادارے کا پوسٹر دیکھا 1600 میں ایک حصہ اس حساب سے 11,200 کا ایک جانور ہوا۔ اب اپ بتائیے کہ کیا عید کے زمانے میں 11200 کا بڑا جانور ملتا ہے کہ جس کے سات حصے ہوسکے؟؟

بالفرض اگر مل بھی گیا حالانکہ ممکن ہی نہیں۔ پھر بھی یہ لوگ قصائی کے پیسے کہاں سے دیں گے ؟؟ جانور کا ٹرانسپورٹ کا خرچ کہاں سے دے رہے ہیں ؟؟ عموماً ہفتہ دس دن پہلے جانور خریدا جاتا ہے تو اسکے سنبھالنے اور چارے کے بھی مصارف آتے ہیں اس کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟؟ اور گوشت تقسیم کرنے کے لیے جو دور دراز کے غریب علاقوں میں جارہے ہیں وہاں تک جانے کا پیسہ کہاں سے لارہے ہیں؟؟؟*
اسی طرح ایک دوسر ا اشتہار دیکھا اس میں تو حد ہی ہوگئ 1500 میں حصہ اسی طرح اور ایک اشتہار میں 2300 میں حصہ , اسی طرح 2600 میں حصہ۔ اور ایک ادارہ نے تو حد ہی کردی 10500 میں مکمل جانور کی قربانی یعنی 10500 میں جانور , ٹرانسپورٹ, چارہ , قصائی, اور تقسیم کیلیے ٹرانسپورٹ سب خرچ مکمل !!!!

اکثر ایسے لوگ فراڈی ہوتے ہیں۔ یہ دینداری کا چولا اوڑھ کے آپ سے پیسے ہڑپ رہے ہیں اس میں آپ کے دو نقصان ہیں ایک تو قربانی کا فرض بھی ادا نہیں ہورہا ہے اور دوسرا آپ کا پیسہ بھی ضائع ہورہا ہے۔ بالفرض اگر یہ لوگ جانور خرید کر قربانی دے بھی دیں تو سوچئیے اتنا سستا جانور کیسا ہوگا ؟؟ اسکی صحت کیسی ہوگی ؟؟؟ اور کیا وہ قربانی کے لائق ہوگا؟؟ کیا آپکی مالی استطاعت کے مطابق اس جانور کی قربانی آپ کے لیے قابل قبول ہوگی؟؟؟

یہ تمام سوالات اپنے ذہن میں رکھیے۔ دین کے نام پر دو نمبری کے اس کاروبار کو فروغ دینے سے بچیے۔ ہماری قربانی ہماری ذمہ داری ہے لہذا اپنی قربانی خود ادا کیجیے یا ایسے ذمہ دار جماعتوں اور اداروں کو دیجیے جو واقعی منظم طریقہ سے یہ کام کرتے ہوں اور جن پر مکمل بلکہ سو میں سے ایک سو ایک فیصد یقین ہو کہ یہ ہماری قربانی ادا کریں گے۔ ورنہ سستی قربانی کے چکر میں اپنی قربانی کا فریضہ اور اپنا پیسہ برباد نہ کریں۔

میری قربانی۔۔۔۔ میری ذمداری_

19/06/2023

✍🏻عبداللہ ہندی