محمد عباس دھالیوال.
مالیر کوٹلہ، پنجاب.
رابطہ 9855259650
“کر چلے ہم فدا جان تن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو ” گیت کار کیفی اعظمی
کیفی اعظمی جہاں اردو ادب کے ممتاز ترقی پسند شاعراور نغمہ نگار تھے. وہیں آپکی بیٹی شبانہ اعظمی ہندی سنیما کی مشہور اداکارہ رہی ہیں جبکہ شبانہ کے شوہر جاوید اختر ہندی فلموں کے معروف سٹوری رائٹر اور نغمہ نگار ہیں. کیفی اعظمی 14 جنوری ، 1925 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے آپ کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔کیفی کی ابتدائی تعلیم بھی اس وقت کے مطابق روایتی اردو، عربی اور فارسی کے ساتھ ہوئی آپ کے والد آپ کو مذہبی تعلیم دلانا چاہتے تھے اس غرض سے انہوں نے کیفی کو لکھنو میں سلطان المدارس میں داخل کروا دیا۔ اسی بیچ لکھنو کے قیام کے دوران کیفی کی ملاقاتیں ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ ہونے لگیں۔ اس دور میں لکھنؤ ترقی پسند ادیبوں کا ایک اہم مرکز بنا ہوا تھا۔
اسی اثنا میں یعنی ۱۹۴۱ میں کیفی لکھنؤ چھوڑ کر کانپور چلے آئے اور یہاں اس وقت مزدوروں کی تحریک زور پر تھی اور کیفی بھی آتے ہی اس تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ کیفی کو کانپور کی فضا بہت راس آئی یہاں رہ کر آپ نے مارکسی لٹریچر کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا۔ ۱۹۴۳ میں کیفی سردار جعفری اور سجاد ظہیر کے کہنے پر ممبئی کے لیے روانہ ہو گئے. آپ کے شاعری کے ساتھ جڑاؤ کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کیفی ابھی محض گیارہ برس کے ہی ہوئے تھے کہ شاعری کرنے لگے تھے۔ آپ کی پہلی نظم کچھ اس طرح تھی کہ :
مدت کے بعد اس نے جو الفت سے کی نظر
جی خوش تو ہوگیامگر آنسو نکل پڑے
اک تم، کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہر حال چل پڑے
کیفی اعظمی کا اترپردیش کے بہرائچ سے گہرا تعلق تھا۔ اس بات کی توثیق شمیم اقبال خاں اور کاوش شوکتی کے ذریعہ مرتب کردہ دیوان شوق طوفان اور شاعر اور ادیب شارق ربانی کے حوالے سے بھی ہوتی ہے اس کے علاوہ اس وقت کے روزناموں میں اس کا ذکر ملتا ہے یہاں قابل ذکر ہے کہ کیفی کے والد سید فتح حسین رضوی نانپارہ کے قریب نواب قزلباش کے تعلقہ نواب گنج میں تحصیل دار تھے اور شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں رہا کرتے تھے اس طرح سے کیفی کے بچپن کے کئی برس بہرائچ کی سرزمین پر گزرے. بعد میں بھی کیفی کا بہرائچ میں مسلسل آناجانا رہا اس دوران کیفی اپنے بچپن کے دوستوں سے ملاقات کرتے اور شفیع بہرائچی کی دکان پر ادبی محفل کا حصہ بنتے، جہاں بہرائچ کے مشہور شاعر وصفی بہرائچی ،جمال بابا،شوق بہرائچی ،ڈاکٹر نعیم اللہ خاں خیالی،عبرت بہرائچی ،اظہار وارثی وغیرہ شمولیت فرمایا کرتے تھے.
اپنے ممبئی کے قیام کے دوران
معاشی مشکلوں کے سبب کیفی نے فلموں میں نغمے بھی لکھے. سب سے پہلے آپ نے شاہد لطیف کی فلم ’’ بزدل ‘‘ میں دو گانے لکھے ۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ کیفی کی فلموں سے وابستگی بڑھتی گئی اور نغموں کے ساتھ ساتھ آپ فلمی کہانیاں ، مکالمے اور منظرنامے بھی لکھنے لگے ۔ فلم کاغذ کے پھول، گرم ہوا، حقیقت، ہیر رانجھا جیسی نامی فلمیں آج بھی کیفی کے نام کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں وابستہ ہیں فلم گرم ہوا کے لیے انھیں بہترین مکالموں کے لیے ایوارڈ ملا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی فلمی دنیا میں کیفی کو بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز، فلم فیئر اعزاز پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم شامل ہیں.
سجاد ظہیر نے کیفی کے پہلے ہی مجموعے کی شاعری پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’جدید اردو شاعری کے باغ میں نیا پھول کھلا ہے۔ ایک سرخ پھول ” آپ کی شاعری پہلے ہی دن سے سے ترقی پسندانہ فکر وسوچ کو عام کرنے میں لگی نظر آتی ہے ۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ آپ عملی اور تخلیقی دونوں سطحوں پر تا عمر ترقی پسند تحریک اور اس کے مقاصد سے وابستہ رہے ان کی پوری شاعری سماج کے فاسدنظام، جبر و استحصال کی صورتوں اور غلامانہ ذہنیت کے تحت جنم لینے والی برائیوں کے خلاف ایک زبردست احتجاج و نعرہ کہی جا سکتی ہے۔
آپ کو ممبئی میں فکر روز گار میں قریب دس سال تک مشقت کرنی پڑی. اور پھر 1950ء کی دہائی میں ڈاکٹر منشاء الرحمٰن خان منشاء کی دعوت پر کیفی ایوت محل کے مشاعرے کے لیے بلائے گئے ۔ اس مشاعرے میں شرکت کے لیے 80 روپیے طے ہوئے۔ تاہم اسی زمانے میں کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی پیدا ہوئیں ۔ جس کی وجہ سے وہ مشاعرے میں شرکت سے قاصر تھے مگر پیشگی رقم 40 روپیے ان کی وقتیہ ضروریات کے کام آئی۔ کیفی نے منشا سے خط لکھ کر معذرت خواہی کی اور ساتھ ہی پیشگی رقم کی واپسی کا وعدہ کیا۔ جب کیفی کی شاعری کو اپنے مطالعہ میں لاتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ
کیفی بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی معروف نظموں میں عورت، اندیشہ، ٹرنک کال، حوصلہ، تبسم، مکان، بہروپی اور دوسرا بن باس خصوصی طور پر شامل کی جا سکتی ہیں۔ نظم “کوئی یہ کیسے بتائے” کے چند اشعار دیکھیں کہ
کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے
وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے
یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے
یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے
اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن
ان کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن
اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے
دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی
اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی
آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے
تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ
کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ
ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے
ایک اور معروف نظم “دوشیزہ مالن” سے چند اشعار دیکھیں کہ کس خوبصورتی و دلکشی کے ساتھ صبح صادق سے لیکر سورج کے طلوع ہونے کا اور چاندنی کے گلوں میں سمانے کا نقشہ یقیناً پڑھنے و دیکھنے لائق ہے. آپ بھی دیکھیں کہ.
لو پو پھٹی وہ چھپ گئی تاروں کی انجمن
لو جام مہر سے وہ چھلکنے لگی کرن
کھچنے لگا نگاہ میں فطرت کا بانکپن
جلوے زمیں پہ برسے زمیں بن گئی دلہن
گونجے ترانے صبح کا اک شور ہو