کیا فلسطین ایک نئے انتفاضہ کے لیے تیار ہے؟

389

جنوری میں عقبہ جبر پناہ گزین کیمپ کے نوجوانوں پر مشتمل ایک گروپ نے اسرائیلی آباد کاروں میں مقبول اریحا کے ایک ریستوران پر حملہ کیا، مگر اس حملے سے پہلے انہوں نے حماس کی حمایت کا نعرہ بلند کیا۔یہ ان کے خاندانوں اور حماس کے لیے حیران کن تھا۔

حماس کے مسلح ونگ کا نام استعمال کرنے والے ان دونوں نوجوانوں ابراہیم اور رافت کے والد وائل عودات نے کہا کہ "وہ اس لمحے تک القسام کے رکن نہیں تھے۔” "ان کی زندگی عام لوگوں کی طرح تھی۔”

ان کی کہانی مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد میں حالیہ اضافے کے دوران ایسی اچانک کارروائیوں اور پہلے سے کام کرتی فلسطینی مزاحمتی تحریکوں یا نئے گروپوں سے وابستگی کے پیچیدہ تعلق کی عکاسی کرتی ہے۔ تشدد کی اس لہر نے 1980 اور 2000 کی مانند ایک نئے فلسطینی انتفاضہ کے خدشات کو ہوا دی ہے۔

مرکزی دھارے میں شامل فلسطینی قیادت سے الگ تھلگ اور سوشل میڈیا کے دور میں پرورش پانے والے فلسطینیوں کی نئی نسل نے نابلس میں واقع ”عرین الاسود” سے لے کر ”جنین بریگیڈ” تک کئی عسکریت پسند گروپوں کو جنم دیا ہے۔

پچھلے ایک سال کے دوران مغربی کنارے میں ابھرنے والی یہ عسکریت پسند تنظیمیں جو بعض اوقات مٹھی بھر افراد پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان کا حماس، فتح یا اسلامی جہاد جیسے گروپوں سے محض غیررسمی سا تعلق ہوتا ہے۔

حماس کے دو اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ "سخت نگرانی کی وجہ سے مغربی کنارے میں عام طور پر کام کرنا ناممکن ہو گیا ہے، حماس اسرائیلی کاروائیوں سے بچنے کے لیے زیادہ لچکدار، غیر رسمی نیٹ ورکس پر انحصار کر رہی ہے۔”

جیریکو جو بحیرہ مردار کے تفریحی مقام کے طور پر مشہور ہے عام طور پر ایک پُرسکون شہر ہے۔ یہاں موجود حماس کی مقامی تنظیم نے روئٹرز کو بتایا کہ تحریک کو ریسٹورنٹ پر حملے کے پیچھے موجود گروپ کے بارے میں پہلے سے معلوم نہیں تھا لیکن "کوئی بھی نیا دھڑا حماس کا نام استعمال کرنے میں خوشی محسوس کرے گا۔ "اس ناکام حملے کے چند دن بعد اس گروپ میں شامل نوجوان اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے۔

حماس کے کارکن، جس نے اسرائیلی انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کر دیا، کہا کہ "یہ تمام علامات ہیں کہ انتفاضہ آ رہا ہے۔” "لوگوں کی ایک نئی نسل ہے جو یقین رکھتی ہے کہ واحد حل مسلح جدوجہد ہے۔”

ٹک ٹاک، پوسٹرز اور گانے

فلسطین میں پہلے سے قائم شدہ گروپوں کی خود ساختہ شاخیں پھیل رہی ہیں۔ جیسے کہ عقبہ جبر بٹالین جو عودات برادران اور ان کے دوستوں نے تشکیل دی تھی۔ اور کچھ عرصہ پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔

اس ماہ جینین میں ایک ریلی کے دوران ایک نقاب پوش نوجوان مزاحمت کار نے کہا کہ "آج ہمارے پاس ایک نئی نسل ہے جو مزاحمت سے واقف ہے، اور یہ قابض اسرائیل کی وحشت کو جانتی ہے۔”

"نوجوان نے کہا کہ اس نسل کو گرفتاری، زخموں یا شہادت کا خوف نہیں ہے۔ یہ اب کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہے۔

بغیر کسی مرکزی قیادت کے، یہ گروپ اپنے پیغام کو ترانوں، ٹک ٹاک ویڈیوز اور دیواروں پر مزاحمت کاروں کی تصویروں والے پوسٹروں کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔اسرائیلی فوجی اور آباد کاروں کی طرف سے بار بار کی گئی تذلیل پر مضطرب نوجوانوں کے لیے یہ خود کو مثال پیش کرتے ہیں۔

جنین بریگیڈ کے ایک نقاب پوش بندوق بردار نے کہا کہ "مسلح مزاحمت کاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور دشمن کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہمارے لوگوں اور ہمارے کیمپوں کے خلاف تشدد ان کی تعداد میں کمی نہیں کرتا بلکہ بڑھا رہا ہے۔”گذشتہ سال کے دوران، اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے میں کریک ڈاؤن میں تقریباً روزانہ چھاپے مارے۔

اسرائیلی کاروائیوں میں 200 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے- صرف اس سال مغربی کنارے اور یروشلم میں تقریباً 80 فلسطین اور 40 سے زیادہ اسرائیلی اور غیر ملکی شہری مارے جا چکے ہیں۔

فلسطینی اور اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان اور یہودیوں عید فصح قریب آ رہے ہیں، مزید تشدد کے خدشات بڑھ گئے ہیں، جبکہ شام، لبنان، عراق، لبنان، اردن اور اسرائیل سے بڑے پیمانے پر ہتھیار سمگل ہو رہے ہیں۔

ایک سینئر اسرائیلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ "یہ باقاعدہ ہتھیار ہیں، ان میں ایم 16 ہے، کلاشنکوف ، پستول اور گولہ بارود ہوتے ہیں، یہ وہ ہتھیار نہیں ہیں جو آپ گھر پر بنا سکتے ہیں، یہ وہ ہتھیار ہیں جو حکومتیں خریدتی ہیں،”

افسر نے کہا کہ فلسطینی عسکریت پسندوں کی نئی نسل تنظیم سازی کے لیے سوشل میڈیا کو مؤثر طریقے سے استعمال کر رہی ہے۔

امن کی اپیل

اگرچہ باقاعدہ قیادت کی کمی کے باعث نئے گروپوں کی جانب توجہ کم ہو گئی ہے، تاہم اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی بے ساختہ قسم کی تنظیمی نوعیت اور تنہا حملہ آوروں کی بڑی تعداد، جن کا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، نے ان پر قابو پانا بہت مشکل بنا دیا ہے۔

26 فروری کو مغربی کنارے میں حماس کے بندوق بردار کی طرف سے دو اسرائیلیوں کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے واقعے نے قریبی فلسطینی گاؤں حوارہ کے خلاف سینکڑوں آباد کاروں کے انتقامی حملے کو جنم دیا۔

یہ تشدد مسلسل ہو رہا ہے، کبھی فلسطینیوں کے لیے چیک پوائنٹس پر فوجیوں کے ساتھ تصادم کے روزمرہ کے تجربے کے درمیان، اور کبھی اسرائیلی آباد کاروں کے ساتھ، جو اشتعال انگیز کاروائیاں کرتے ہیں یا فلسطینیوں پر تشدد حملے کرتے ہیں۔

ایک جانب سے تشدد کی کاروائی کے بعد دوسری جانب سے بھی ایسی کاروائی ہوتی ہے۔ تشویش زدہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے پر امن رہنے کی اپیلیں کی جاتی ہیں۔ لیکن نہ تو اسرائیل، جو اب اپنی تاریخ کی انتہائی قوم پرست مذہبی حکومتوں کے زیر کنٹرول ہے اور نہ ہی فلسطینی مزاحمت کار پیچھے ہٹنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔

احمد غنیم جن کے دو بھائی جنوری میں ایک اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے تھے نے کہا کہ مجھے اب کس بات کا ڈر نہیں ہے۔ میں اپنے ہتھیار اٹھا کر فوج کے خلاف کھڑا ہوں،”وہ 3 مارچ کو جینین کے پناہ گزین کیمپ میں جینین بریگیڈ کے بانی کے اعزاز میں منعقدہ پریڈ میں شریک تھے۔

یہ ریلی طاقت کا ایک شاندار مظاہرہ تھا، جس میں مختلف تنظیموں کے تقریباً 250 مزاحمت کار ایک صحن میں پریڈ کر رہے تھے، اس کی دیواروں پر شہدا کی تصویریں بنی ہوئی تھیں جن کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں اور ان کے بال مغربی کنارے کے نوجوانوں میں مقبول انداز میں تراشے گئے تھے۔

چار دن بعد، اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے کیمپ پر چھاپہ مارا، جس میں کم از کم چھ مزاحمت کا شہید ہو گئے، ان میں 26 فروری کو حوارہ فائرنگ میں ملوث حماس کے کارکن بھی شامل تھے۔

اس کے دو دن بعد، اسلامی جہاد کے تین بندوق بردار ایک چھاپے میں شہید کر دیے گئے اور اتوار کو، اسرائیلی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں تین عرین الاسود کے عسکریت پسند شہید ہو گئے۔

تلخی میں اضافہ

اسرائیلی حکام اکثر تشدد میں اضافے کا الزام فلسطینی اتھارٹی پر عائد کرتے ہیں جس کا مغربی کنارے میں محدود کنٹرول ہے لیکن درحقیقت وہ ان کاروائیوں کو روکنے کے لیے اتنی مؤثر نہیں ہے۔

اس سے پہ مستزاد اتھارٹی کی توجہ کئی مہینوں سے اپنے 87 سالہ صدر محمود عباس کے مستقبل پر مرکوز ہے، جن کی اقتدار سے بے دخلی سے دھڑے بندی کا خطرہ درپیش ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اقدامات سے فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کر رہے اور نوجوانوں میں ناراضگی کو ہوا دے رہے ہیں جو پہلے ہی بے روزگاری اور ناکافی مواقع سے دلبرداشتہ ہیں۔

یہ تلخی اب بنیاد پرست حلقوں سے نکل چکی ہے اور نسبتاً خوشحال فلسطینیوں کو بھی متاثر کرتی ہے، جیسا کہ عودات برادران، جو تعلیم یا امکانات سے محروم نوجوانوں کے دائرے میں نہیں آتے تھے۔

27 سالہ ابراہیم عقبہ جبر میں پانی کے ٹینکر کا کاروبار چلاتے تھے اور اپنے 22 سالہ بھائی رفعت کی طرح، جو ایک الیکٹریشن تھا، دو سال کالج کی تعلیم مکمل کر چکے تھے۔ عودات نے بتایا کہ ان کے گروپ کے ایک رکن کا پولٹری کا کاروبار تھا اور وہ جدید ماڈل کی بی ایم ڈبلیو چلاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عقبہ جبر یا ایسے دیگر علاقوں میں زندگی بظاہر خوشحال ہے لیکن فلسطینی نوجوانوں کو قدم قدم پر پابندیوں اور رکاوٹوں اور جبر کا سامنا ہے جو ان کو انتقامی کاروائیوں پر ابھارتا ہے۔