کیا شیوسینا بی جے پی کا زوال شروع ہوگیا ہے؟ از: شکیل رشید

ہر عروج کو زوال ہے ۔

پر شیوسینا اور بی جے پی دونوں ہی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے !مہاراشٹر پر ’قبضے‘ کے لئے دونوں کے بیچ جو جنگ جاری ہے اس میں فتح چاہے جس پارٹی کی ہو ، بی جے پی کی یا شیوسینا کی ، نقصان میں دونوں ہی رہیں گے ۔ اگر بی جے پی جنگ جیتتی ہے اور اس کی حکومت بن جاتی ہے تو شیوسینا کا ’ سکڑتا وجود‘ مزید ’ سکڑ‘ جائے گا ، بلکہ ممکن ہے کہ شیوسینا ’بے وجود‘ ہی ہوجائے ۔ اور اگر شیوسینا اپنی باتیں منوالیتی ہے تو بی جے پی کی اس ’طاقت‘ میں ، جسے ہر سیاسی مرض کا علاج سمجھا جاتا ہے ، ناقابلِ تلافی کمی آجائے گی اور ’ اپنی بات منوانے‘ کی اس کی ’ صلاحیت‘ بے دھارہوکر رہ جائے گی ۔ چونکہ بی جے پی کے سر پر اپنے ’ناقابلِ تسخیر‘ ہونے کا بخار چڑھا ہوا ہے ، اور وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی قیادت کو سارے ’ بھاجپائی‘ اپنے لئے بھی اور پارٹی کے لئے بھی ’ جادوئی‘ سمجھنے لگے ہیں ، اس لئے مہاراشٹر اسمبلی ۔۔۔ اور ہریانہ اسمبلی۔۔۔ کے نتائج سے ’ بھاجپائیوں ‘ اور ’ بی جے پی ‘ نے ہوش کے ناخن نہیں لئے ہیں ۔ مہاراشٹر میں 288 ممبران کی اسمبلی میں 105 سیٹیں یعنی گذشتہ کے مقابلے 17 سیٹیں کم پانے کے بعد ہی بی جے پی کو سمجھ لینا چاہیئے تھا کہ اس کی ’ مقبولیت‘ کا گراف نیچے گرا ہے ، عوام نے اس کی پالیسیوں کو ٹھکرادیا ہے اور کسانوں نے اسے ٹھینگا دکھادیا ہے ۔

اسمبلی الیکشن کے نتائج کے جائزے سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ اگر این سی پی قائد شردپوار کی طرح کانگریسی قیادت نے بھی ریاست میں محنت کی ہوتی تو نتائج مزید حیرت انگیز ہوسکتے تھے ۔ سینئر صحافی نکھل واگھلے نے کانگریس کی قیادت کی ’ نااہلی‘ اور انتخابی مہمات میں ’ لاپروائی‘ برتنے کے باوجود 44 سیٹوں پر اس کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے بالکل درست کہا ہے کہ ’ ’کانگریس بھگوان کی پارٹی ہے ‘‘! ان کا کہنا تھا کہ اگر بغیر کسی محنت کے ، بغیر اپنے امیدواروں کو مدد دیئے اور بغیر اعلیٰ قیادت کے میدان میں اترے ، اور پارٹی کے اندر شدید انتشار اور لڑائی جھگڑے کے چلتے ،جب کانگریس کی کارکردگی اچھی رہی تب اندازہ کرلیں کہ اگر اس کی ریاستی اور قومی قیادت نے سنجیدگی سے انتخابی مہمات میں حصہ لیا ہوتا اور محنت کی ہوتی تو اس کے نتائج کیا شاندار ہوتے ! کانگریس نے گذشتہ الیکشن کے مقابلے اپنی سیٹوں کی تعداد میں دوکا اضافہ کیا ، کئی جگہ اس کے امیدوار معمولی ووٹوں کے فرق سے ناکام ہوئے ۔ کئی سیٹوں پر کانگریسی امیدواروں کی شکست میں ’ آپسی انتشار‘ نے اہم کردار ادا کیا ۔ کئی سینئر لیڈران پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے امیدواروں کی ’ہار‘ کو یقینی بنانے کے لئے’ منصوبہ بندی‘ کی ۔

صرف’منصوبہ بندی‘ ہی نہیں بی جے پی سے باقاعدہ ’ ساز باز ‘ کی ۔۔۔ یہ ساری گڑبڑیاں اس لئے ممکن ہوسکیں کہ کانگریس کی مرکزی قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی ، اس نے پارٹی کے اندر جاری انتشار اور اٹھاپٹخ کو فرو کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ، اور جو سینئر لیڈران عوام پر اثرانداز ہوسکتے تھے انہیں ’ گھاس تک نہیں ڈالی‘ بلکہ الیکشن کے موقع پر اہم لیڈروں کو عہدوں سے ہٹانے کی عجیب وغریب حرکت کی ! لگ رہا تھا کہ کانگریس کی مرکزی قیادت نے بی جے پی کو پلیٹ میں سجاکر حکومت پیش کرنے کا تہیہ کررکھا ہو ۔
شردپوار سے کانگریس نے کوئی سبق نہیں لیا جو بیماری کے باوجود پوری ریاست میں سرگرم رہے ۔ انہوں نے بی جے پی کو ’ نشانے‘ پر رکھا ۔ ریاست کے مسائل اور کسانوں کی مشکلات کو اجاگر کیا ۔ نتیجے میں این سی پی نے 54 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ۔ گذشتہ اسمبلی کے مقابلے 13 زائد سیٹیں! حالانکہ این سی پی اور کانگریس میں انتخابی گٹھ جوڑ تھا لیکن کانگریس نے شردپوار کے ’ کرشمے‘ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی ، سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ دونوں پارٹیاں ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑی نظر آتیں تو بی جے پی ، شیوسینا گٹھ جوڑ کو بہت بڑا جھٹکا لگ سکتا تھا۔

رہی سہی کسر ان سیاسی پارٹیوں نے پوری کردی جنہیں کانگریس اور این سی پی دونوں ہی نے بجائے ’ اپنانے‘ کے اپنے سے ’ دور‘ کیا ۔ مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم) نے 44 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے ، دوپر کامیابی حاصل کی اور دودرجن سے زائد سیٹوں پر ’ غیر بھاجپائی‘ امیدواروں کو جنِ میں مسلم امیدوار بھی تھے ہرادیا ۔۔۔ ونچت بہوجن پارٹی نے 288 امیدوار کھڑے کئے پر صرف ایک ہی امیدوار کامیاب ہوسکا ۔۔ اگر ونچت ، کانگریس اور این سی پی ساتھ ہوتی تو 132 سیٹوں پر کامیابی مل سکتی تھی۔ کیجریوال کی ’ آپ‘ کے 24 امیدوار میدان میں تھے پر ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا ۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر ’ غیر بھاجپائی‘ سیاسی پارٹیاں متحد ہوتیں یا تکنیکی طو رپر آپس میں اتحاد کیا ہوتا تو آج بی جے پی اور شیوسینا کے درمیان مہاراشٹر پر قبضے کے لئے جنگ نہ ہورہی ہوتی ، ریاست ان کے اقتدار سے بچی رہتی ۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ ہی درست ہوگا کہ کانگریسی قیادت کی نا اہلی اور لاپروائی اور غیر کانگریسی سیکولر سیاسی پارٹیوں کا تھوک کے بھاو میں امیدواروں کو میدان میں اتارنا بی جے پی اور شیوسینا کے لئے ’ نعمت غیر مترقبہ‘ ثابت ہوا ۔

اب ان دونوں کے درمیان ’جنگ‘ چھڑی ہوئی ہے ۔ شیوسینا کے سربراہ ادھوٹھاکرے ’سیاسی آدمی‘ نہیں ہیں لیکن ان کے والد بال ٹھاکرے بجائے بھتیجے راج ٹھاکرے کو ، جو مکمل طور پر ’ سیاسی آدمی‘ ہیں ، اپنا وارث بنانے کے بجائے انہیں ۔۔۔۔ کیونکہ وہ بیٹا جو ٹہرے۔۔ اپنا جانشین بناگئے ہیں ۔ ادھو ٹھاکرے اپنے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے کو اپنی وراثت سونپنا چاہتے ہیں ۔۔۔ زوردار آواز اٹھ رہی ہے کہ مہاراشٹر کا وزیراعلیٰ آدتیہ ٹھاکرے کو بنایا جائے ۔ آدتیہ ٹھاکرے کو وزیراعلیٰ کے عہدے پر براجمان کرنے کا مطالبہ ’دانشمندانہ‘ نہیں کہا جاسکتا ۔ وہ پہلی بار ایم ایل اے بنے ہیں اور ابھی ان کی عمر صرف 27 برس ہے ، ان کا سیاست کا تجربہ ابھی مختصر ہے ، اور مہاراشٹر جیسی ریاست کو چلانے کے لئے جو ملک کی معاشی راجدھانی ہے ، کسی ناتجربہ کار نہیں بے حد تجربہ کار وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہے ۔ یہ بات شیوسینک بھی جانتے ہیں، اسی لئے شیوسینا کے اس مطالبہ کو کہ ، بی جے پی اقتدار میں اس کی ساجھیداری کو ففٹی ففٹی کی بنیاد پر قبول کرے ، اور آدتیہ ٹھاکرے کو وزیراعلیٰ بنایا جائے ، بی جے پی نے بہت سنجیدگی سے نہیں لیا ہے ۔ لیکن شیوسینا اپنے مطالبے کو لے کر ’ سنجیدہ‘ ہی لگ رہی ہے ۔ آدتیہ ٹھاکرے بھلے وزیراعلیٰ نہ بنائے جائیں پر شیوسینا ، بی جے پی کو پوری ریاست کا ’ خودمختار‘ سمجھنے کی ’ چھوٹ‘ دینے کو تیار نہیں ہے ۔
بی جے پی یہ سمجھ رہی ہے کہ اس اسمبلی کے ختم ہونے کی آخری تاریخ 8 نومبر تک معاملہ سلجھ جائے گا اور دیویندر فڈنویس آئندہ کے پانچ برسوں کے لئے پھر وزیراعلیٰ بن جائیں گے ۔ دونوں ہی طرف سے ایک دوسرے پر روزانہ تیر برسائے جارہے ہیں ۔ بی جے پی کبھی ’صدر راج‘ کی دھمکی دیتی ہے تو کبھی کہتی ہے کہ اس نے ایسی کوئی دھمکی نہیں دی ہے ۔ شیوسینا کبھی طنزیہ سوال کرتی ہے کہ کیا صدر جمہوریہ بی جے پی کی گود میں ہیں اور کبھی کہتی ہے کہ ’گٹھ جوڑ‘ کی ہی حکومت بنے گی ۔۔۔ این سی پی اور کانگریس اس لڑائی پر نظریں جمائے ہیں کہ اگر کوئی موقعہ آئے تو وہ اس لڑائی میں کود پڑیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہوگا ؟
ممکن ہے کہ شیوسینا وزیراعلیٰ کی گدّی کی ضد چھوڑ دے اور بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنالے، لیکن یہ شاید اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب شیوسینا کے ہاتھ میں نائب وزیراعلیٰ کی گدّی آنے کے ساتھ تین اہم ترین وزارتیں بھی ملیں گی ، ایک تو محکمہ ٔ داخلہ کی وزارت ، دوسری ہاؤسنگ کی وزارت اور تیسری مالیات کی وزارت ۔ اور یہ تینوں ہی وزارتیں بی جے پی نے اب تک کسی حلیف سیاسی پارٹی کو نہیں سونپی ہیں ۔ یہ وازرتیں جس پارٹی کے پاس ہونگی ’ اقتدار‘ پر اس کی گرفت مضبوط ہوگی۔ کیا بی جے پی یہ قربانی دے سکے گی؟ یہ سوال اہم ہے ۔ اگر اس نے قربانی دی تو حکومت تو بن جائے گی لیکن اس کے ہاتھ سے وہ وزارتیں نکل جائیں گی جو اپنے ساتھ ’مال اور طاقت ‘ لاتی ہیں ۔ اس سے بی جے پی کی ساکھ کمزور ہوجائے گی ۔ پھر اس کی طرف سے شیوسینا کو کمزور کرنے کی اور اس کے ممبران اسمبلی کو خریدنے کی منصوبہ بندی بھی ہوسکتی ہے ۔ گویا یہ کہ تین اہم وزارتیں اور نائب وزیر اعلیٰ کی گدّی پاکر بھی شیوسینا کو چوکنا اور ہوشیار رہنا پڑے گا ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ شیوسینا تینوں وزارتیں نہ لے ، نائب وزیراعلیٰ کی گدّی کے ساتھ ایک آدھ اہم اور باقی کم اہم وزارتیں لے لے ، اگر ایسا ہوا تو بھی حکومت بن جائے گی ، لیکن ’ مضبوط‘ نہیں ہوگی، انتشار بھی برقرار رہے گا اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی سازشیں بھی پنپتی رہیں گی۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ شیوسینا کو این سی پی اور کانگریس کا سہارا مل جائے ، پر اس کا امکان کم ہی ہے ۔۔۔ اگر ایسا ہوابھی تو بی جے پی، شیوسینا کی نیندیں حرام کئے رکھے گی اور لڑائی مسلسل جاری رہے گی جو دونوں ہی پارٹیوں کو کمزور کرے گی ۔۔۔ گویا یہ کہ بی جے پی اور شیوسینا دونوں کے زوال کا یہ آغاز ہے ، پر زوال کو انجام تک پہنچانے کے لئے اپوزیشن کا متحد ہونا ضروری ہے ۔

Leave a comment