پریاگ راج :(ایجنسی). پریاگ راج میں اتوار کو بلڈوزر کے ذریعے جس گھر کو منہدم کر دیا گیا،اس پر سرکار کی نظر چند دن پہلے سے ہی تھی، کہنے کو وہ گھر ویلفیئر پارٹی کے ضلع صدر جاوید محمد کا ہے، لیکن وہ گھر آفرین فاطمہ کا بھی ہے جو اسٹوڈنٹ لیڈر ہیں اور شاہین باغ تحریک سے نمایاں طور پر وابستہ رہی ہیں ۔ پیغمبر اسلام ؐ پر تبصرے کے نام پر جو مظاہرے ہو رہے ہیں ، ان میں پولیس اب زیادہ تر ایک مخصوص کمیونٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ کانپور اور سہارنپور میں کئی ایس پی لیڈروں کو تشدد کرنے والوں میںنامزد کردیا گیاہے ۔ نوپور شرما کی گرفتاری کا معاملہ اب کہیں پیچھے چھوٹ گیاہے ۔
آفرین فاطمہ کے گھر کو اجاڑنا ظلم وبربریت ھے۔۔۔۔۔۔۔ بلڈوزر کی سیاست ملک کو تباہی کی طرف لے جائےگی ۔۔۔۔۔۔کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی حرکتیں حق کی آواز کو خاموش کردیں گی۔۔۔۔۔۔ نہیں ! ہرگز نہیں!
— Maulana Umrain Mahfuz Rahmani (@MaulanaUmrain) June 12, 2022
الہ آباد میں جمعہ کی نماز کے بعد اٹالہ بڑی مسجد پرمسلمانوں نے احتجاج کیا۔ کچھ عناصر نے اس درمیان پتھراؤ کیا لیکن پولیس نے فوراً ہی حالات کو سنبھال لیا ۔ یعنی یہ پتھر بازی چند منٹ چلی ہوگی۔ یہاں پر کانپورجیسی کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی بازار بند کرایا گیا۔ پریاگ راج پولیس نے اس مبینہ تشدد کے معاملے میں اٹالہ بڑی مسجد کے امام علی احمد، اے آئی ایم آئی ایم ضلع صدر شاہ عالم، ذیشان رحمانی، سارہ احمد ، بائیں بازو کے لیڈر ڈاکٹر آشیش متل، علی احمد وغیرہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
Prayagraj SSP on arrest of Javed Mohammad, claimed to one of the masterminds of violence in the city. Says his daughter studies in JNU and is involved in notorious activities. The father-daughter duo together propagate propaganda, SSP said. pic.twitter.com/vi7PM3EJ2m
— Piyush Rai (@Benarasiyaa) June 11, 2022
اتنے ناموں کی ایف آئی آر آنے کے بعد الہ آباد میں ہونے والے مظاہرے کا ماسٹر مائنڈ ویلفیئر پارٹی کے صدر جاوید محمد کو بتایا گیا اور پوری انتظامیہ اور حکومت کی توجہ جاوید احمد کے گھر پر مرکوز ہو گئی۔
ہفتے کی رات پولیس نے آفرین فاطمہ کے والد جاوید محمد، والدہ پروین فاطمہ اور بہن سمیہ فاطمہ کو گھر سے اٹھا لیا۔ پروین اور سمیہ کے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں تھی لیکن انہیں غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا تھا۔ آفرین فاطمہ نے فوری طور پر قومی کمیشن برائے خواتین کو ایک خط بھیجا جس میں بتایا گیا کہ ان کے اہل خانہ کو بغیر کسی وارنٹ کے گھر سے اٹھا لیا گیا ہے۔ ادھر انتظامیہ نے جاوید کے گھر پر نوٹس چسپاں کر دیا اور اتوار کو بغیر کسی کی موجودگی کے گھر پر بلڈوزر چلانا شروع کر دیا گیا۔ پولیس نے یہاں سے ویلفیئر پارٹی کا جھنڈا اور تشہیری مواد بھی برآمد کیا ہے۔
प्रयागराज: JNU की छात्र नेता Afreen Fatima के घर पर चला बुलडोजर#Prayagraj pic.twitter.com/yFkuxBqPHU
— News24 (@news24tvchannel) June 12, 2022
الہ آباد کی ایک خاتون وکیل سیما آزاد نے کسی طرح پولیس حراست میں آفرین کی ماں پروین اور بہن سمیہ سے بات کی، پھر انہوں نے جو کچھ بتایا وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ پولیس نے پروین اور سمیہ سے پوچھا کہ آپ کے گھر میں کیا بات چیت ہوتی تھی ؟
आफ़रीन फ़ातिमा के रूम से किताबें तस्वीरे और फर्नीचर बाहर निकालकर फेंका गया!#StandWithAfreenFatima pic.twitter.com/fDSxtpkDio
— Zakir Ali Tyagi (@ZakirAliTyagi) June 12, 2022
آفرین فاطمہ نے میڈیا کو بتایا کہ جمعہ کے واقعے سے قبل بھی پولیس نے ان کے والد جاوید محمد کے خلاف دفعہ 107 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ آفرین نے کہا کہ اس کیس کے درج کرنے کا مطلب یہ تھا کہ شہر میں کہیں بھی کچھ ہوا تو اس کے والد ذمہ دار ہوں گے۔ جمعہ کو جب احتجاج ہوا تو انتظامیہ کی ساری توجہ جاوید محمد پر مرکوز تھی۔
حالانکہ ایف آئی آر میں کئی نام ہیں۔ آفرین کے مطابق پولیس اہلکار اسی رات ان کے الہ آباد گھر آئے اور سب کو اسٹیشن چلنے کو کہا۔ جب انہوں نے جانے سے انکار کیا تو انہیں نے زبردستی گھر خالی کر ا کر اس پر تالا لگا دیا۔ اس طرح انتظامیہ اور سرکار پورا کام منصوبہ بند طریقے سے کررہی تھی ۔
آفرین فاطمہ شاہین باغ تحریک کے دوران دہلی کے جے این یو سے الہ آباد تک سرگرم تھیں۔ اس کے بعد وہ سوشل میڈیا پر حکومت کی اقلیتوں سے متعلق پالیسیوں پر تنقید کرتی نظر آئیں۔ دائیں بازو کے خیالات کو فروغ دینے اور پھیلانے والے ایک پورٹل نے آفرین کو جیل میں بند طالب علم رہنما شرجیل امام کا معاون بتایا ہے۔ آفرین فاطمہ اور ان کے والد کے ویلفیئر پارٹی میں ہونے پر تنقید سرکار کو پسند نہیں آئی۔ چنانچہ اس پریوار کو بہت طریقے سے اتوار کو بے گھر کر دیا گیا ۔
اس معاملے میں پولیس اور انتظامیہ کی کارروائی کے صحیح غلط کا فیصلہ تو عدالت میں ہوگا۔ لیکن الہ آباد کے کریلی علاقے میں جہاں یہ گھر ہے، وہاں زیادہ تر گھر مسلمانوں کے ہیں ۔ کریلی پہلے اتنا آباد نہیں تھا، یہاںپر لوگوں نے زمین خرید کر گھر بنائے ہیں۔
یہاں پر انتظامیہ کسی بھی گھر میں کوئی کمی بتا کر توڑ سکتی ہے، جبکہ یوپی سرکار میں بڑے عہدے سے ریٹائرڈ افسروں کے گھر بھی یہاں پر ہیں ۔
Stand in unflinching solidarity with Afreen and her family. We stand against the intimidation tactics of the BJP-RSS.#StandWithAfreenFatima pic.twitter.com/yvNprnh6aS
— Aishe (ঐশী) (@aishe_ghosh) June 12, 2022
اس سے پہلے جمعہ کو میونسپل کی ٹیموں نے پولیس کے ساتھ مل کر سہارنپور میں دو ملزمین کے مکانات کو مسمار کیا تھا۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ غیر قانونی تعمیرات تھیں۔ کانپور میں بھی اس کی توڑ پھوڑ کی گئی، جہاں اسی مسئلہ پر 3 جون کو پرتشدد جھڑپیں اور پتھراؤ ہوا تھا۔ اترپردیش پولیس نے جمعہ کے احتجاج اور تشدد کے سلسلے میں ریاست کے مختلف اضلاع سے 300 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیاہے، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف ’سخت‘ کارروائی کا انتباہ دیا۔ پولیس نے بتایا کہ گرفتار کیے گئے افراد میں سے 91 پریاگ راج، 71 سہارنپور اور 51 ہاتھرس میں پکڑے گئے ۔