کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

0 237

بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے اور بہت کم ہی کسی کو تقدیر سے یہ سعادت ملتی ہے کہ دبے کچلے معاشی و سماجی بدحالی کا شکار لوگوں کی خدمت کرنے کی خاطر کسی کو سیاسی قوت حاصل ہوورنہ دل میں لاکھوں تمناؤں کے باوجود قوت کی عدم ہ حصول یابی کے سبب ان پسمانداوں کی نجات کا موقع نہیں ملتا.

شہر اورنگ آباد اس وقت پورے بھارت میں عوام کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہےکیونکہ لفظ مسلم کے نام پر ووٹوں کا مانگنا بھی جس ملک میں ملک کے تئیں غداری، پاکستان نوازی اور مسلم مظلوموں کے حقوق کی آواز بلند کرنا بھی ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہونے کی بات کی جا تی ہےمزید یہ کہ ملک کے مرکزی تخت پر ملک کی عوام ایسے شخص کی تاجپوشی دوبارہ پورے جوش و خروش کے ساتھ کرنے والی ہیں جومسلمانوں کا اور پسماندہ طبقات کا سب سے بڑا دشمن ہیں اور جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے سنے ہوے ہیں اس لئے ان حالات میں مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار امتیاز جلیل کی کامیابی پورے ملک کی توجہ مرکز بنا ہوا ہے

جیسے اورنگزیب عالمگیر کے دور میں حزب اختلاف لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا یہ کامیابی محض سیاسی نعرے بازی اور تاج محل قطب مینار کی قصیدہ خوانی کی نذر نہ ہو بلکہ آج تک با طل قوتوں کے ظلم و تشدد کا شکار کمزور اور بے یار و مددگار حتی کہ کہ 11 مئی کے روز شہید ہوے بےگناہ حارث قادری 4سال پہلے پڑے گاون علاقے میں ہوس کا شکار ہو کر قتل کی گی بسم اللہ بی اور آئے روز تشدد کا شکار ہوتے معصوم بے یارومددگاراتنا ہی نہیں بلکہ اوقاف کی سینکڑوں ایکر املاک پر ناجائز قبضہ جات کے علاوہ کٹھوا کے معصوم چار سالہ آصفہ اور اس طرح کی کئی معصوم سسکتی کراہتی مدد کے لیے ہاتھ پھیلاتی معصوم کلیوں کے ماتم کا واسطہ دے کر تقدیر نے سید امتیاز جلیل کو یہ موقع عطا کیا ہےکہ اب کی بار پانچ سالوں میں ان بے گناہوں کی انصاف کی پکار سن لی جائے اور حلقہ انتخاب میں موجود بے روزگار نوجوان، پولیس انتظامیہ کی بدسلوکی کے شکار لوگوں کو انصاف سے نوازا جائے.

اسی دوران ہمارے ونچیت بھائیوں کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف ہوں کہ انہوں نے بھی اپنے تن من دھن سے مجلس کے کندھے سے کندھا ملا کر اوناو اور گجرات میں ان کے ساتھ ہوئے مظالم کی فریاد کی شکل میں ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہےاب وقت ہے اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن پر اجارہ داری کے خاتمے کے ساتھ ہمارے سیکولر غیر مسلم بھائیوں کی طرف سے مسلمانوں کے سیاسی مفادات کی خاطر پیدا کردہ نفاق کو دور کرنا یہ ہم سب کا اولین فریضہ ہے اس لیے زعفرانی مخالفین کے ایوانوں میں برپا 30 سالہ جشن کے بعد کا ماتم کا ماحول اس بات کی دلیل ہے کہ اتحاد کی قوت فرقہ پرستی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی ہم خوش نصیب ھیکہ 30 سال بعد ایسا جشن دیکھنے والے ہیں اس لیے

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے

شہاب مرزا 9595024421