کرناٹک میں کرسی کے نشے کی شکست : کرناٹک انتخابی نتائج پر تجزیہ ✍: سمیع اللہ خان
اب تک کے نتائج سے یہ تقریباً طے ہوچکا ہے کہ کرناٹک میں بھاجپا شکست کھا چکی ہے اور کانگریس بھاری اکثریت کےساتھ جیتنے جارہی ہے، آپکو یاد ہونا چاہیے کہ یہ لگاتار دوسری بڑی ریاست ہے جو بھاجپا کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے، اس سے پہلے دسمبر ۲۰۲۲ میں بھاجپا ہماچل پردیش بھی ہار چکی ہے، آر ایس ایس کی گھٹاٹوپ اندھیر نگری کےدوران جبکہ چاروں طرف سے ہندوتوا کا جن مسلمانوں پر حملہ آور ہے کرناٹک انتخابات کا نتیجہ راحت کی ایک سانس ہے، منفی اور مایوس خبروں کے درمیان یہ مثبت اور امید افزا خبر ہے، دشمنوں اور ظالموں کے چوطرفہ محاصرے
کےباوجود ہمت نہ ہارنے والوں اور جدوجہد میں یقین رکھنے والوں کے لیے یہ ایک حوصلہ بخش خبر ہے، جس وقت اندھیروں اور تاریکیوں کے نمائندے کو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا ہو عین اسی وقت ظلمتوں کی کرسی کے دو دو پائے ہل جانا کسی خدائی رحمت سے کم نہیں، بلکہ یہ ڈکٹیٹرشپ کے سامنے سجدہ کرنے والوں کے لیے اللہ کی طرف سے ایک پیغام بھی ہوتا ہے، چڑھتے سورج کو ناقابلِ غروب سمجھ کر اس کی پوجا کرنے لگ جانے والے بزدلوں اور طاقت کے پجاریوں کے لیے قوت کے اصل سرچشمے کی ایک جھلک ہوتی ہے تاکہ وہ انسانیت دشمن ظالم طاقتوں کی جی حضوری سے باز آئیں قوی و قھار مالک کے بھروسے ظالم قوتوں سے مظلوموں کو آزادی دلانے کا مشن سنبھالیں، طاقت کا اصل مالک انہیں ہماچل و کرناٹک سے زیادہ تاریخہ فتح دلائےگا_
کرناٹک میں کراری ہار کےبعد بھاجپا اور اس کے گھمنڈی وزرا یقینًا مزید بوکھلائیں گے خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے ہڑبڑائیں گے اور معصوم انسانوں کو اپنے سرکاری انتقام کا شکار بھی بنائیں گے لیکن اگر ہم ڈٹ گئے تو مزید ظلم کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے،
کرناٹک میں راج کرتے رہنے کے لیے بھاجپا اور آر ایس ایس نے جم کر نفرت پھیلائی، ریاست کا وزیراعلی، سنگھ کا کیڈر یہاں تک کہ ملک کا وزیراعظم اور وزیرداخلہ تک نفرت کا پرچم لے کر میدان میں کود پڑے تھے سب نفرت میں غوطے لگا رہے تھے مسلمانوں کےخلاف اتنی نفرتیں پھیلائی گئی کہ انسانوں کےخلاف ہٹلر اور نیتن یاہو کی نفرت انگیزیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا گیا، ملک کے وزیراعظم اور وزیرداخلہ کرناٹک میں ہندوؤں کو یہ بتانے میں لگ گئے تھے کہ اگر بھاجپا گئی تو مسلمان سکون میں آجائیں گے اور اگر بھاجپا رہےگی تو مسلمانوں کو تکلیف دے گی، نظامِ جمہوریت کی تاریخ میں اس سے زیادہ بےشرمی کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔
وزیراعظم مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ کے بول میں تکبر کی اعلٰی ترین جھلک نظر آرہی تھی اور مظلوم مسلمانوں کو حقارت سے بار بار جھٹکنے رعونت صاف نظر آرہی تھی، بھاجپا اپنے ظلم و ستم اور مسلمانوں کےخلاف بدترین وحشیانہ تشدد سے زیادہ اپنے کبر و تعلی گھمنڈ اور رعونت کی وجہ سے ہارنے لگی ہے، جس طرح ان لوگوں نے کرناٹک میں مسلمانوں پر حملے کرائے انہیں حقیر و ذلیل گردانا ان کی خواتین و مستورات تک کو نہیں بخشا وہ حیوانیت سے بدتر ظلم تھا، پاپولر فرنٹ پر پابندی لگانے سے لےکر حجابی خواتین پر حملہ کرنے تک کیا نہیں کیا ان لوگوں نے؟ مسلمان ہی کیا؟ اللہ کی کسی بھی مخلوق کےساتھ ایسا حقارت آمیز ظلم ناقابل برداشت ہوتا،
*میں نے پہلے بھی کئی دفعہ لکھا ہے کہ صرف ایک صورت ایسی ہوتی ہے جب مظلوموں کی عملی ناکامی اور کام چوری کےباوجود بھی ظالم ناکام ہوتا ہے اور وہ ہے ظالم کا ظلم کےساتھ ساتھ رعونت آمیز گھمنڈ! جب ظالم و سفّاک حکمران اپنی رعایا پر متکبرانہ ظلم کرنے لگتے ہیں تو اللہ کو جلال آتا ہے اور وہ گھمنڈی ظالموں کے گرد اپنی رسّی تنگ کرنے لگتا ہے اور پھر ایسی ایسی جگہوں اور زاویوں سے ظالموں کی کرسی کے پائے ہلنے لگتے ہیں کہ ان کا متکبرانہ اعتماد ڈگمگانے لگتا ہے، اپنی کرسی اپنی طاقت کا نشہ تھوڑا تھوڑا انہیں مشکوک اور ملاوٹی لگنے لگتا ہے، فی الحال ہماچل پردیش اور کرناٹک میں ملنے والی ہار سے مودی امیت شاہ اور بھاگوت کےساتھ یہی ہونے جارہا ہے اب انہیں اپنی طاقت کے نشے پر شک ہوگا پھر کیا ہوگا؟ انتظار کیجیے:*
جب نشے کا عادی منشیات کے لیے ہائے توبہ مچائے گا تب ہم آپکو بتائیں گے کہ کس طرح نشیڑیوں کو Rehabilitation Centre میں بھرتی کرایا جاتا ہے، تب تک آپ نکمّے مظلوم بننے کی بجائے باعزت و باشعور انسان بنیے اور "نشہ مخالف مہم” میں ایسے حصہ لیجیے کہ سیاسی چرس اور نفرتی گانجے کا دھندا کرنے بھی rehabilitation Centre میں انجکشن کے قابل ہوجائیں، خیر، اب یہ مت سوال کرنے بیٹھ جانا کہ نشے سے کیا مراد ہے؟ منشیات کیا ہے؟ اور نشے کی لت کسے لگی ہے؟ کون Rehabilitation جارہا ہے؟ جاری………
samiullahkhanofficial97@gmail.com