کرناٹک کا نتیجہ:”گرمیوں کی بارش ہے بہار نہ سمجھو”

117

کل کرناٹک انتخابات کے نتائج سامنے آئے جس کے بعد ہر کسی کو خوشی ہوئی کہ نفرت کی سیاست, ہندتوا کا جنون, ہٹلر کی اکڑ اور موٹا بھائی کا غرور خاک میں مل کر ڈھیر ہوگیا۔ کچھ لوگ ان نتائج کو ہندوستان کے مستقبل سے جوڑ رہے ہیں اور یہ اندازہ لگارہے ہیں کہ سال 2024 کے انتخابات میں مودی کو ہٹایا جاسکتا ہے یا بھاجپا بری طرح ہارے گی۔

سال 2024 میں کیا ہوگا یہ تو فی الوقت کہنا مشکل ہے لیکن ہاں ماضی کے فیکٹ اینڈ فیگرس کی بنیاد پراتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کرناٹک کے نتائج کو 2024 کے لوک سبھا سے جوڑنا بےوقوفی ہی ہوگی۔ اسے ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس سال ہمارے یہاں اپریل کے آخری عشرے سے لیکر مئ کے پہلے عشرے تک وقفے وقفے سے بہت تیز بارش ہو رہی تھی تو کیا اس اچانک ایک بارش کے ہونے کو بہار آمد سمجھ لیا جائے ; ہرگز نہیں یہ تو ایک اتفاقیہ عمل تھا لیکن موسم تو گرمی کا ہی رہے گا۔ بس کرناٹک کے نتائج کو یہی سمجھ لیجیے کہ وہ موسم گرما میں ایک اتفاقی بارش ہے لہذا اس ایک بارش سے موسم بہار کو جوڑنا بےوقوفی ہوگی۔

آئیے بڑھتے ہے حقائق کی طرف۔۔۔۔۔

سب پہلے تو بات کرناٹک ہی کی کریں گے۔ گزشتہ میقات یعنی ۲۰۱۸ میں جب کرناٹک میں الیکشن ہوئے تو کانگریس اور جے ڈی ایس کی متحدہ حکومت بنی تھی اور بھاجپا اسی طرح اپوزیشن میں تھی۔ اس کے بعد اس اوکالی بارش کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ چھے ماہ بعد جب ملک کی پانچ بڑی ریاستوں یعنی راجستھان, مدھیہ پردیش, چھتیس گڑھ, میزورم اور تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات ہوئے تو ان پانچوں ریاستوں میں بھی بھاجپا بری طرح ہاری۔ یعنی لوک سبھا الیکشن ۲۰۱۹ سے صرف چھے مہینہ قبل بی جے پی پانچ ریاستوں میں الیکشن ہار گئ ; لیکن جب چھے ماہ بعد لوک سبھا انتخابات ہوئے تو بی جی پی نے 543 میں سے 303 سیٹ جیتنے کا تاریخی ریکارڈ بنایا۔

یہاں یہ بات صاف ہوجاتی ہیکہ اسمبلی نتائج کا لوک سبھا انتخابات پر بہت زیادہ اثر نہیں ہوتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہارنے کے صرف چھے ماہ بعد بھاجپا کیسے واضح اکثریت سے مرکز میں حکومت بنا پائی؟

دوسری اہم بات یہ ہیکہ بی جی پی پر اکثر ای وی ایم مشین گھوٹالے کے الزامات لگتے ہیں تو کیوں نہ یہ چانکیہ کی پالیسی کا حصہ ہو کہ لوک سبھا سے پہلے خود ہار جائے تاکہ لوک سبھا کے نتائج پہ کوئی سوال نہ کرسکے اور اگر کوئی کرے بھی تو اسے کہہ دیں گے کہ اسی ای ایم سے ہم نے اتنے اسمبلی انتخابات ہارے تھے تب تو آپ نے ای وی ایم کو برا نہیں کہا۔
کیونکہ ایسا کرنے سے دو فائدے ہے ایک تو لوک سبھا کے نتائج کے بعد کوئی سوال نہیں کرسکتا اور کرے بھی تو اس کے سوال کی کوئی اہمیت نہیں رہتی دوسرا یہ کہ لوک سبھا کہ بعد یہ ریاست بھی ہمارے ہی پاس آئے گی بس ایک ریسورٹ بک کرنے کی دیر ہے۔

تیسری اہم بات یہ کہ کرناٹک الیکشن کا اعلان ہونے سے لیکر نتائج آنے تک گودی میڈیا چیخ چیخ کہ کہہ رہی تھی کہ بھاجپا ہار رہی ہے کانگریس جیت رہی ہے۔ کیا گودی میڈیا کا اس طرح کانگریس کے حق میں بولنا آپ کو اشارہ نہیں دے رہا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ ورنہ یہ کب سے آقا کے خلاف بولنے لگے؟؟

اگر ہم ان سب سازش کو چھوڑ بھی دے تب بھی یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا انتخابات میں فرق ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو حلقوں کی تقسیم بدل جاتی ہے, الیکشن کی نوعیت بدل جاتی اور الیکشن کے مدّعے بھی بدل جاتے ہیں۔ ریاست کا الیکشن آپ زمینی مسائل کی بنیاد پر جیت سکتے ہیں لیکن لوک سبھا میں قومی مسائل ہی اکثریت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کبھی نالی اور سڑک کو موضوع بنا کر نہیں جیتے جا سکتے بلکہ یہ الیکشن اکثر جذباتی موضوعات کو مدعا بناکر جیتے جاتے ہیں جس کا واضح ثبوت ہمارے ملک کے سابقہ الیکشن ہے جس میں چاہے کانگریس جیتی ہو یا بی جے پی آپ ان کی جیت کے سال کے مسئلے دیکھ لے وہ ترقیاتی نوعیت کے نہیں بلکہ جذباتی یا ملکی نوعیت کے ہی ہوتے ہیں۔
آخر میں خوش ہونے والوں سے یہی کہوں گا

گرمیوں کی بارش ہے بہار نہ سمجھو
طے شدہ نتیجہ ہے اسے ہار نہ سمجھو

✍🏻عبداللہ ہندی