چینی ارب پتی کیوں غائب ہو رہے ہیں؟

149

چین کی ٹیکنالوجی کی صنعت کے بڑے سرمایہ کار باؤ فین کی گزشتہ ماہ گمشدگی نے نہ صرف ایک بار ملک میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ ارب پتی افراد کے غائب کیے جانے سے متعلق لوگوں کے تجسس اور تشویش کے رجحان میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے۔باؤ فین چائنا رینیسنس ہولڈنگز کے بانی ہیں جن کے صارفین کی فہرست میں بڑی انٹرنیٹ کمپنیاں بشمول علی بابا، ٹینسینٹ اور بیدو شامل ہیں۔ اور اس کمپنی کو ملک کے ٹیکنالوجی سیکٹر میں ایک نشان کی حیثیت حاصل ہے اور انھیں چین کے ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔

باؤ فین کی گمشدگی کا واقعہ ان کی کمپنی کے اس اعلان کے ایک ہی روز بعد سامنے آیا جب انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ’عوامی جمہوریہ چین میں بعض حکام کے خلاف کی جانے والی تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔‘تاہم چین کی روایت کے مطابق ابھی تک یہ تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں کہ کون سا سرکاری ادارہ ان کی گمشدگی کی تحقیقات کر رہا ہے، اور اب وہ کہاں پائے جاتے ہیں۔حالیہ برسوں میں متعدد چینی کاروباری رہنماؤں کے لاپتہ ہونے کے بعد اب باؤ فین کی گمشدگی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ گمشدہ ہونے والے ان افراد میں علی بابا کے باس جیک ما بھی شامل ہیں۔

اگرچہ غائب ہونے والے ارب پتیوں کو دنیا کی بہت زیادہ توجہ حاصل ہوتی ہے، لیکن چینی شہریوں کے لاپتہ ہونے کے پیچھے حکومت مخالف مظاہروں یا انسانی حقوق کی مہمات میں حمایت بھی اس کی ایک وجہ کے طور پر بیان کی جاتی ہے۔باؤ فن کی گمشدگی نے ایک بار پھر اس سوچ کو تقویت دی ہے کہ یہ طریقہ بھی انہی اقدامات کی ایک کڑی ہے جس سے صدر شی جن پنگ چین کی معیشت پر اپنا کنٹرول سخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ واقعہ نیشنل پیپلز کانگریس(این پی سی ) کے سالانہ رن اپ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں رواں ہفتے(ربڑ اسٹیمپ کہلائی جانے والی) پارلیمنٹ نے چین کے مالیاتی ریگولیٹری نظام کے میں سب سے بڑے ترمیمی منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔اس کے تحت زیادہ تر مالیاتی شعبوں کی نگرانی کے لیے ایک نیا مالیاتی ریگولیٹری واچ ڈاگ قائم کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس سے ان متعدد ایجنسیوں کی موجودہ خامیاں ختم ہو جائیں گی جو ملک میں ٹریلین ڈالر تک مالیاتی خدمات کی صنعتوں کے مختلف پہلوؤں کی نگرانی کرتی ہیں۔صرف 2015 میں ہی کم از کم پانچ ایگزیکٹوز ایسے تھے جن تک رسائی ممکن ہی نہ رہی ۔ان میں گروپ فوسن انٹرنیشنل کے چیئرمین گوو گوانگ چانگ بھی شامل ہیں جن کی ایک وجہ شہرت انگلش پریمیئر لیگ فٹ بال کلب ولور ہیمپٹن وانڈررز کے مالک ہونے کی بھی ہے۔گوو گوانگ بھی بازیاب ہونے کے بعد دوبارہ اسی سال دسمبر میں لاپتہ ہو گئے تھے جب ان کی کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان کی بازیابی سے متعلق کی جانے والی تحقیقات میں مدد کر رہے ہیں۔

چین کے امیر ترین افراد میں سے شامل ارب پتی چینی نژاد کینیڈین تاجر ژیؤ جیانوا کو ہانگ کانگ کے ایک لگژری ہوٹل سے لے جایا گیا گیا تھا۔ ایک سال قبل وہ کرپشن کے الزام میں جیل بھی گئے تھے۔مارچ 2020 میں ارب پتی رئیل اسٹیٹ ٹائیکون رین ژیکیانگ اس وقت لا پتہ ہو گئے جب انھوں نے چینی صدر کو وبائی امراض سے نمٹنے پر مسخرہ کہا تھا۔اسی سال کے آخر میں ایک روزہ مقدمے کی سماعت کے رین ژیکیانگ کو بدعنوانی کے الزام میں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ۔

چین کے غائب ہونے والے سب سے ہائی پروفائل ارب پتی علی بابا کے بانی جیک ما تھے۔چین میں اس وقت کے امیر ترین شخص جیک ما کو 2020 کے آخر میں ملک کے مالیاتی ریگولیٹرز پر تنقید کرنے کے بعد غائب کر دیا گیا تھا۔چین کی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی اینٹ گروپ میں شیئرز کی فروخت پر بھی پاندی عائد کر دی۔ حکومت کے مشترکہ خوشحالی فنڈ میں تقریبا دس ارب ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کرنے کے باوجود انھیں وہ دو سال سے زیادہ عرصے سے چین میں نہیں دیکھا گیا جبکہ ان پر کسی جرم کے ارتکاب کا الزام بھی عائد نہیں کیا گیا۔جیک ما کا اصل ٹھکانہ ابھی تک واضح نہیں ہے حالانکہ حالیہ مہینوں میں محتلف اوقات میں انھیں جاپان، تھائی لینڈ اور آسٹریلیا میں دیکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔

چینی حکومت کا دعوی ہے کہ ملک کے چند امیر ترین افراد کے خلاف کارروائیاں خالصتاً قانونی بنیادوں پر کی گئی ہیں ۔ حکومت نے بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے بعض اقدامات کئی دہائیوں کے لبرلائزیشن کے پس منظر میں دکھائی دے رہے ہیں۔

چین کے ارب پتیوں کی ایک بڑی تعداد کے منظر عام سے غائب ہونے کے معاملات اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں کہ ایسے ارب پتی افراد ، جو اپنی بے پناہ دولت کے ساتھ کافی طاقت ور سمجھے جاتے ہیں، ان کو کس طرح زبان بندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کی قیادت میں، چینی کمیونسٹ پارٹی واپس اقتدارکا حصول چاہتی ہے اور وہ اس کے لیے ایسے طریقے اپنا رہی ہے جن سے پردہ نہیں اٹھ پاتا۔

اس نظریہ کہ مطابق بڑے کاروبار، خاص طور پر ٹیکنالوجی کی صنعت، نے اپنی طاقت کو شی جی پنگ کے پیش رو جیانگ زیمن اور ہوجن تاؤ کی پالیسیوں کے تحت بڑھتا ہوا دیکھا تھا۔اس سے قبل بیجنگ کی توجہ طاقت کے روایتی مراکز پر رہی تھی، جن میں فوج، بھاری صنعت اور مقامی حکومتیں شامل تھیں۔
صدر شی جن پنگ نے معیشت کو مزید اپنے کنٹرول میں لانے کے اقدامات کے طور پر ان شعبوں پر مضبوط گرفت برقرار رکھنے کی اپنی توجہ مرکوز کی۔

ان کی مشترکہ خوشحالی کی پالیسی معیشت کے بیشتر حصوں کے لیے بڑے کریک ڈاؤن کا سبب بھی بن گئی جس کی زد میں خاص طور پر ٹیکنالوجی کی صنعت آئی۔

اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ سے تعلق رکھنے والے نک مارو نے بی بی سی کو بتایا، ’بعض اوقات، یہ واقعات ایک وسیع تر پیغام لیا ہوتا ہے جس میں خاص طور پر کسی مخصوص صنعت یا مفاداتی گروپ کو نشانہ پر رکھا جاتا ہے۔‘نک مارو نے مزید کہا ’یہ معیشت کے ایک مخصوص حصے پر کنٹرول اور اختیار کو مرکزی بنانے کی کوشش کی عکاسی کرتا ہے، جو کہ گزشتہ دہائی کے دوران صدر شی کے طرز حکمرانی کی ایک اہم خصوصیت رہی ہے۔عالمی مشاورتی فرم البرائٹ میں سٹون برج کے سربراہ پال ٹریولو کہتے ہیں

’بیجنگ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ بڑے ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز اور کھلاڑی اپنے برانڈز اور اثر و رسوخ کا ایسا استعمال نہ کریں جس کی وجہ سے ان کو قابو کرنا بھی مشکل ہو جائے اوران کمپنیوں کا بیجنگ کی ترجیحات کے خلاف جانے کا امکان زیادہ ہو۔‘

پال ٹریولو کا کہنا ہے کہ مشترکہ خوشحالی قانون کی حکمرانی سے آتی ہے قوانین کا اطلاق امیر یا غریب سب پر یکساں ہونا چاہیے۔دوسری جانب بیجنگ کا موقف ہے کہ اس پالیسی کا مقصد دولت کے بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنا ہے، جس پر بہت سے لوگ متفق ہیں۔ اور اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو یہ ایک بڑا مسئلہ بن کر کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔

چین میں اس وقت عدم مساوات بڑھ رہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ صدر شی کو انتہائی بائیں بازو کے لوگوں کے دباؤ کا سامنا ہے جو پارٹی کو ایک بار پھر اس کی روح کے مطابق ’سوشلسٹ روٹ`کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیںارب پتی افراد کے لاپتہ ہونے کے معاملات بڑھنے کے ساتھ ساتھ اب یہ خدشہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ اس کے نتائج بیجنگ کے لیے سنگین بھی ہو سکتے ہیں۔چین کے کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کے لیے اب نئے کاروباری ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے خطرات کا سامنا بھی ہے۔

پال ٹریولو نے کہا: ’ٹیکنالوجی کے ارب پتیوں کو ہدف بنانے میں بیجنگ کے لیے خطرہ ٹیکنالوجی سے وابستہ سرمایہ کاروں پر مزید دباؤ ڈال رہا ہے جو بزنس میں اگلے جیک ما بننے کی امید کرتے ہیں۔‘

صدرشی کاروباری جذبات کو بھڑکانے کے خطرے سے واقف دکھائی دیتے ہیں، اور اس ہفتے این پی سی کے مندوبین سے ایک تقریر میں انھوں نے چین کے لیے نجی شعبے کی اہمیت پر زور دیا۔تاہم ساتھ ہی نجی اداروں اور کاروباری افراد سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ ’امیر بننے کے ساتھ ساتھ ذمہ دار، صالح، اور محبت کرنے والے‘ بنیں۔

ایک نئے مالیاتی نگران کے اعلان کے ساتھ ساتھ بینکرز کو بھی گزشتہ ماہ متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے مغربی ہم منصبوں کی مثال پر عمل کرنے سے گریز کریں۔

پال مارو نے کہا،’حالیہ مہینوں میں، ہم مالیاتی خدمات میں مشترکہ خوشحالی کے ایجنڈے کے اشارے دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر جہاں سینئر ایگزیکٹوز کے لیے معاوضے اور بونس اسکیمیں ہیں وہیں انتظامیہ اور جونیئر عملے کی تنخواہ کا فرق بھی گھٹانے کی کوشش سامنے آ رہی ہے۔‘

مبصرین کے مطابق یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا صدر ژی کا ارب پتیوں کے خلاف کریک ڈاؤن انہیں اقتدار پر اپنی گرفت کو نمایاں طور پر مضبوط کرنے میں مدد دے گا تاہم چین کی مالیاتی منڈیوں، کاروبار اور مجموعی طور پر ملک کی معیشت پر اعتماد کو خطرات کا سامنا ضرور ہے۔۔