پاکستان سے انڈیا میں داخل ہونے کی کوشش میں گرفتار محمد کا رضوان کا کیا ہو گا ؟ پڑھئے والدین نے کیا کہا

انڈین پولیس کا کہنا ہے کہ رضوان نوپور شرما کو قتل کرنے کے ارادے سے انڈیا آئے تھے ‘جب میرے بیٹے نے سنا کہ بی جے پی کی ایک خاتون رہنما نے ہمارے نبی کے خلاف توہین آمیز باتیں کی ہیں تو اس نے کھانا پینا تقریباً بند کر دیا تھا اور بہت خاموش ہو گیا۔‘

محمد اشرف نے افسردہ لہجے میں اپنے بیٹے کے بارے میں یہ اطلاع دی۔ ان کے بیٹے محمد رضوان کو 16-17 جولائی کی درمیانی شب انڈین بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے اہلکاروں نے راجستھان کے علاقے ہندومل کوٹ سے اس وقت گرفتار کیا جب وہ مبینہ طور پر انڈین علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

انڈین پولیس حکام کے مطابق رضوان سے دو چاقو، کچھ مذہبی کتابیں، کھانے کی کچھ چیزیں اور کپڑے برآمد ہوئے ہیں۔

پولیس نے بعد میں دعویٰ کیا کہ 24 سالہ محمد رضوان پاکستان سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی معطل ترجمان نوپور شرما کی جانب سے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازع باتیں کرنے پر انہیں قتل کرنے کے منصوبے کے ساتھ انڈیا میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

نوپور شرما کے اس بیان پر نہ صرف انڈیا میں تنازع کھڑا ہوا تھا بلکہ دنیا کے کئی مسلم ممالک نے اس پر کافی اعتراضات بھی کیے تھے۔ دنیا بھر سے احتجاج کے بعد ہی انہیں پارٹی ترجمان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور انہوں نے اپنے بیان پر افسوس ظاہر کیا تھا۔

چلُہ کاٹنے کا کہہ کر انڈیا چلے گئِے

محمد رضوان پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھیالہ شیخاں کے رہنے والے تھے.

گاؤں میں ان کے والد اشرف کی الیکٹرانکس کے سامان کی مرمت کی دکان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند ہفتوں سے ان کے بیٹے کو دکان کے کام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

بقرہ عید سے چند دن پہلے رضوان اپنی والدہ سے کہیں باہر جانے کی بات کر رہے تھے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں جانا چاہتے ہیں لیکن وہ باہر جانے کی اجازت مانگ رہے تھے۔

کچھ دنوں سے ماں بیٹے کے درمیان اس بات پر بحث ہو رہی تھی۔ ماں کے بہت پوچھنے پر رضوان نے بتایا کہ وہ چِلہ کاٹنا چاہتے ہیں۔

اشرف کے مطابق چونکہ ان کا بیٹا بہت مذہبی تھا اس لیے ماں نے اسے جانے کی اجازت دے دی۔نوپور شرما کی جانب سے پیغمبر حضرت محمد کے بارے میں توہین آمیز بیان کے بعد دنیا بھر سے ردِ عمل سامنے آیا تھا

اشرف کہتے ہیں، ‘اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ وہ کہاں جا رہا ہے، تو ہم اسے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کبھی نہ جانے دیتے۔ لیکن پیغمبر اسلام سے انکی محبت سے سے بڑی چیڑ تھی’۔

اشرف کو اب وہ بات بھی یاد آ رہی ہے جب رضوان نے بقرہ عید پر ایک دوست کو فون کرتے ہوئے کہی تھی۔ رضوان نے اپنے دوست سے کہا تھا کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ عید کے دن کہاں ہو گا۔

تحریکِ لبیک سے متاثر

24 سالہ محمد رضوان کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے اور بریلوی مسلک سے ہے۔ وہ اپنے والد کی دکان کے کام میں مدد کیا کرتے تھے۔ آٹھویں جماعت کے بعد انہوں نے پڑھائی چھوڑ دی تھی۔

انہوں نے بچپن میں قرآن حفظ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ اشرف کا دعویٰ ہے کہ ان کا بیٹا تحریک لبیک (ٹی ایل پی) پاکستان کے نظریات سے متاثر تھا۔

یہ ایک دائیں بازو کی جماعت ہے جس نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے معاملے پر بہت زیادہ مہم چلائی ہے۔

پچھلی ایک دہائی میں، یہ پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے سب سے بڑے کے چیلنج کے طور پر ابھری ہے، جس نے ملک کے اندر مذہبی پاپولسٹ وعدوں اور بنیاد پرستی کی ایک نئی لہر کو ہوا دی ہے۔

نوپور شرما کے بیان پر پورے انڈیا میں بھی شدید مظاہرے ہوئے تھے

گزشتہ چند سال میں ٹی ایل پی نے کئی کامیاب مظاہرے کر کے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ پاکستان میں ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر بھی ابھری ہے۔

گزشتہ سال پاکستانی حکام نے اس تنظیم پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن چند ماہ بعد پابندی اٹھا لی گئی۔

اشرف نے بتایا کہ ان کا بیٹا رضوان مولانا خادم رضوی کے خطابات سے خاصا متاثر ہوا اور ان کا خطاب مسلسل سنتا رہا۔ خادم رضوی تحریک لبیک کے بانی تھے جن کا انتقال ہو چکا ہے۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے پر حملہ

ویسے یہ پہلا موقع نہیں جب رضوان منظرِ عام پر آئے ہیں۔ گزشتہ سال انہیں پنجاب کے سابق سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے پر بار بار حملہ کرنے کے الزام میں لاہور میں گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ مجسمہ سنہ 2019 میں لاہور میں حکام نے رنجیت سنگھ کے مزار پر نصب کیا تھا۔

اشرف بتاتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے مولانا خادم رضوی کی تقریر سنی جس میں انہوں نے کہا کہ رنجیت سنگھ کے دور میں مسلمان عورتوں کے ریپ کیے گئے اور مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا۔

اشرف نے کہا، ‘اس وقت رضوان بہت افسردہ تھے۔ مجسمے کی تنصیب ان کے نظریے کے خلاف تھی اس لیے انہوں نے اسے توڑا اور اس کے لیے انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔‘

اشرف کا کہنا تھا ‘میری اس سے لڑائی بھی ہوئی، میں نے اسے کہا کہ اس سب سے دور رہو لیکن وہ کہتا رہا کہ شیر پنجاب صرف مسلمان صوفی بزرگ داتا گنج بخش صاحب کو کہا جا سکتا ہے، کسی اور کو نہیں۔’

سید علی ہجویری عرف داتا گنج بخش صاحب، گیارہویں صدی کے ایک صوفی تھے جن کا مقبرہ لاہور میں ہے اور لاکھوں جنوب ایشیائی مسلمان انہیں عزت سے یاد کرتے ہیں۔

رضوان اس کیس میں کچھ عرصہ جیل میں رہے اور بعد میں ضمانت پر رہا ہو گئے۔ صوبہ پنجاب کے حکام نے مجسمے کی مرمت کروائی۔ محمد اشرف کا کہنا ہے کہ رضوان کی جیل سے واپسی کے بعد وہ اسے کئی ماہرِ نفسیات کے پاس لے گئے لیکن کسی نے بھی دوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

رضوان کا کیا ہو گا ؟

اشرف کا کہنا ہے کہ انہیں رضوان کی گرفتاری کی خبر سوشل میڈیا سے ملی اور ابھی تک باضابطہ طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ان کے بیٹے کا کیا ہو گا وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

’میں اور میری بیوی بیٹے کی یاد میں ایک دوسرے کو دکھ میں تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے یہ کام نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں کیا ہے، لیکن جب جوان بیٹے کی زندگی مشکل میں ہو تو کسی تسلی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘

‘پولیس ہمیں ہراساں کر رہی ہے، ہم سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے وہ رضوان کے بارے میں پوچھتے ہیں، ہم گاؤں کے سیدھے سادے لوگ ہیں، میرے بیٹے نے حماقت کی ہے، لیکن اس نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنے بنی کی محبت میں کیا ہے۔‘

بھارت کی حکومت نے اس معاملے میں ابھی تک پاکستان سے باضابطہ طور پر رابطہ نہیں کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی ابھی تک اس واقعے پر سرکاری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

شمائلہ جعفری بی بی سی نیوز، اسلام آباد