پاکستان انڈیا کرکٹ کے یادگار لمحات: جب گنگولی کباب کھانے لاہور کی فوڈ سٹریٹ پہنچے

یہ جنوری سنہ 1999 کی بات ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم انڈیا کے دورے پر پہنچنے والی تھی لیکن اس سے پہلے ہی شیوسینا کی طرف سے پاکستانی ٹیم کے خلاف فضا قائم ہو چکی تھی کہ اسے کھیلنے نہیں دیا جائے گا۔

اسی مہم کے تحت شیوسینا کے کارکنوں نے رات کی تاریکی میں نئی دلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ پر دھاوا بول دیا اور پچ کو نقصان پہنچایا۔

گزشتہ سال انڈین ٹیم شارجہ میں پاکستان سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میچ ہاری تو کچھ لوگ نفرت میں اتنے آگے نکل گئے کہ انڈیا کے فاسٹ بولر محمد شامی ’غدار‘ کہلائے گئے بلکہ ایک شخص کی گرفتاری اس وجہ سے عمل میں آئی کہ اس نے انڈین ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی کو ان کی دس ماہ کی بیٹی کا ریپ کرنے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔

یہ اور اسی طرح کے چند دیگر واقعات پاکستان انڈیا تعلقات میں موجود تلخیوں کو اجاگر کرتے ہیں لیکن صرف ان واقعات کے ذریعے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں ملکوں کی کرکٹ پر صرف نفرت کے جذبات ہی غالب رہے ہیں۔

اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو بہت خوبصورت ہے، جس میں دونوں ملکوں کے عوام ہی نہیں بلکہ خود کرکٹرز بھی سیاسی کشیدگی اور نفرت کی آگ سے خود کو بچاتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے مثبت سوچ، احترام اور خوشی کے جذبات رکھتے ہیں۔

انضمام کے بیٹے کا سچن سے ملنا

یہ سنہ 2004 میں انڈین ٹیم کے دورۂ پاکستان میں ایک نہ بھولنے والا منظر تھا، جب لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں پاکستانی ٹیم پریکٹس کر چکی تھی اور اب مہمان ٹیم کی باری تھی۔

سب نے دیکھا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان انضمام الحق انڈین نیٹ کی طرف چلے آ رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کا بیٹا ابتسام الحق بھی تھا۔

انضمام الحق نے نیٹ کے قریب آ کر انڈین بیٹسمین سچن تندولکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ʹیہ لڑکا میرا ہے لیکن پرستار آپ کا ہے۔‘

دراصل ابتسام الحق نے اپنے والد سے اپنے پسندیدہ بیٹسمین سچن تندولکر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور وہ ان سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے۔ سچن تندولکر کافی دیر تک ابتسام سے باتیں کرتے رہے تھے۔

گنگولی کو پرویز مشرف کا فون کیوں آیا؟
سنہ 2004 کے اسی دورے میں سورو گنگولی انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے لیکن ون ڈے سیریز کے آخری میچ میں وہ کیچ لینے کی کوشش میں ان فٹ ہو گئے اور ڈاکٹر نے انھیں تین ہفتے آرام کا کہہ دیا لیکن گنگولی کے ارادے کچھ اور تھے جس کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب A Century is Not Enough میں تفصیل سے کیا ہے۔

گنگولی لکھتے ہیں کہ ’لاہور کا فائیو سٹار ہوٹل سخت سکیورٹی کی وجہ سے قلعہ معلوم ہوتا تھا۔ میں خوشگوار موڈ میں تھا اور میں نے اپنی تکلیف کی شدت کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا۔‘

’میرے چند دوست کولکتہ سے میچ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ آدھی رات کو مجھے پتا چلا کہ میرے دوستوں نے گوالمنڈی کی مشہور فوڈ سٹریٹ میں کباب اور تندوری ڈشیں کھانے کا پروگرام بنایا ہے۔ سکیورٹی میرے سر پر تھی لیکن میں آزادی چاہتا تھا۔‘

’میں نے اپنے سکیورٹی افسر کو بتانے کی زحمت نہیں کی البتہ ٹیم کے مینجر رتناکر شیٹھی کو بتایا کہ میں دوستوں کے ساتھ باہر جارہا ہوں اور یہ کہہ کر میں عقبی دروازے سے باہر نکل گیا۔ میں نے آدھے چہرے کو ٹوپی پہن کر چھپا لیا تھا۔‘

گنگولی مزید لکھتے ہیں کہ ’فوڈ سٹریٹ چونکہ کھلی جگہ پر تھی لہذا ایک مرتبہ کسی نے آ کر مجھ سے کہا کہ ’ارے آپ سوروگنگولی ہیں ناں۔۔۔‘ میں نے نفی میں جواب دے دیا لیکن اس شخص نے کہا ’مگر آپ بالکل سورو گنگولی جیسے نظر آتے ہیں۔‘

گنگولی لکھتے ہیں کہ ’میں اور میرے دوست بمشکل اپنی ہنسی روک پائے۔ ‘

’اسی طرح ایک شخص نے آ کر کہا کہ سر آپ ادھر؟ کیا زبردست کھیلا ہے آپ کی ٹیم نے۔ میں نے اس شخص کی بات کو بھی نظرانداز کر دیا اور وہ بھی مایوس ہو کر چلا گیا۔ ہم ابھی اپنا کھانا ختم کر رہے تھے کہ چند قدم دور انڈین صحافی راج دیپ سرڈیسائی کی نظر مجھ پر پڑ گئی جو انڈین وزیر اطلاعات روی شنکر پرساد کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے وہاں موجود تھے۔

’وہ چلا اٹھے، گنگولی۔۔۔ یہ سننا تھا کہ سب کو میری موجودگی کا پتا چل گیا اور لوگ میرے گرد جمع ہو گئے۔ میں نے دکاندار کو پیسے دے کر وہاں سے نکل جانا مناسب سمجھا لیکن اس نے پیسے نہیں لیے۔ میں تیزی سے کار میں واپس ہوا اور یہی سوچ رہا تھا کہ راج دیپ سر ڈیسائی اگر شور نہ مچاتے تو میں اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر آسانی سے واپس آ سکتا تھا۔‘

گنگولی کا کہنا ہے کہ ’اگلی صبح میرے کمرے میں فون کی گھنٹی بجی اور آواز آئی کہ صدر پرویز مشرف آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان کے صدر کو انڈین کپتان سے بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘

گنگولی کہتے ہیں کہ ’صدر مشرف کی آواز میں نرمی تھی اور وہ کہنے لگے کہ ’اگلی مرتبہ اگر آپ کو باہر جانا ہو تو مہربانی کر کے سکیورٹی کو ضرور بتائیں۔ ہم آپ کے لیے سکیورٹی فراہم کر دیں گے لیکن پلیز مہم جوئی میں نہ پڑیں۔‘

’میں شرمندہ ہو گیا تھا۔ مجھے اس وقت ایسا محسوس ہوا کہ ان کا سامنا کرنے کے مقابلے میں وسیم اکرم کی ان کٹر گیند کا سامنا کرنا کم خطرناک تھا۔‘

’آپ کی مہمان نوازی کا شکریہ‘

سنہ 2004 میں انڈین کرکٹ ٹیم جب پاکستان آئی تھی تو اس وقت بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کارگل کی وجہ سے کشیدہ تھے لیکن اس کے باوجود نہ صرف یہ دورہ ممکن ہوا بلکہ اسے پاکستان انڈیا کرکٹ کی تاریخ کے خوشگوار ترین لمحات کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

اس دورے کی کامیابی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیئرمین شہریار خان کی کرکٹ ڈپلومیسی کا عمل دخل نمایاں تھا جس کی وجہ سے وہ محمد علی جناح کی صاحبزادی دینا واڈیا، پریانکا گاندھی اور راہول گاندھی کو پاکستان لانے میں کامیاب رہے تھے۔

ان کے علاوہ انڈیا سے ہزاروں کی تعداد میں شائقین بھی میچ دیکھنے پاکستان آئے تھے۔

اسی بنا پر پاکستان میں انڈین ہائی کمشنر شیو شنکر مینن نے شہریار خان سے کہا تھا کہ ’شہریار صاحب۔۔۔ 20 ہزار انڈین شائقین یہ میچ دیکھنے پاکستان آئے اور آپ نے ان بیس ہزار کو پاکستانی سفیر بنا کر واپس انڈیا بھیجا۔ آپ کی مہمان نوازی کا شکریہ۔۔۔‘

ایک دوسرے کی مدد کرنے میں پیش پیش
انضمام الحق کو وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب سنہ 1992 کے عالمی کپ کے بعد انھیں شارٹ پچڈ گیندیں کھیلنے میں دشواری ہو رہی تھی اور سنیل گواسکر کے مفید مشورے انھیں اس مشکل سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوئے تھے۔

انڈیا کے اظہرالدین کو جب اپنی بیٹنگ تیکنک میں پریشانی ہو رہی تھی تو انھوں نے مدد کے لیے ظہیر عباس سے رجوع کیا تھا۔ اسی طرح جب سورو گنگولی کو بلے کی گرپ اور سٹانس کے سلسلے میں دقت محسوس ہو رہی تھی تو انھوں نے بھی ظہیر عباس سے مدد چاہی۔

سنہ 2016 میں پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے دورے پر تھی جب اظہرالدین نے یونس خان کو دیکھا کہ وہ بیٹنگ کرتے ہوئے اطمینان محسوس نہیں کر رہے تو انھوں نے یونس خان کی توجہ اس خامی کی طرف دلائی۔

ان کے مشورے پر عمل کر کے یونس خان اوول ٹیسٹ میں ڈبل سنچری بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

،تصویر کا ذریعہ

Sarfraz Ahmed

تصویریں بولتی ہیں
پاکستان انڈیا کرکٹ کی خوبصورتی دونوں ملکوں کے کرکٹرز کے چہروں پر سجی مسکراہٹوں والی تصویروں سے بھی عیاں ہے۔

سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کے موقع پر پاکستان اور انڈیا کی ٹیمیں ایک ہی ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھیں۔

فائنل سے ایک دن پہلے سرفراز احمد اپنے بیٹے عبداللہ کو لیے لابی میں گھوم رہے تھے کہ مہندر سنگھ دھونی نے ان سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے؟

سرفراز احمد نے کہا کہ یہ میرا بیٹا عبداللہ ہے، جس پر دھونی نے انھیں گود میں لیا اور وہ تصویر دنیا بھر میں وائرل ہو گئی۔

اور گزشتہ سال کی اس تصویر کو کون بھلا سکتا ہے جس میں وراٹ کوہلی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی شکست کے باوجود بھرپور سپورٹس مین شپ دکھاتے ہوئے پاکستانی وکٹ کیپر محمد رضوان کو گلے لگا رہے ہیں.

سنہ 2016 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا وہ لمحہ بھی یقیناً سب کو یاد ہو گا جب کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں پاکستان اور انڈیا کے میچ سے قبل دونوں ٹیمیں وارم اپ کر رہی تھیں کہ وراٹ کوہلی پاکستانی ٹیم کی پریکٹس کے قریب گئے اور انھوں نے فاسٹ بولر محمد عامر کو اپنا بیٹ تحفے میں دیا تھا۔

شعیب اختر اور ہربھجن سنگھ کے درمیان سنہ 2010 کے ایشیا کپ کے میچ میں گرما گرمی اس جوش وخروش سے کہیں کم تھی جس کا مظاہرہ یہ دونوں میدان سے باہر دکھاتے رہے ہیں۔

عبدالرشید شکور

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی