وہ پرفضا اور دلکشی سے مالامال ’دنیا کا کنارہ‘ جہاں دنیا کی سب سے شفاف ہوا چلتی ہے

بحر الکاہل، بحر اوقیانوس اور بحر ہند جیسے سمندروں کی سرحدوں پر موجود جزائر پر مبنی آسٹریلوی ریاست تسمانیہ کے ناہموار شمال مغربی سرے پر ایک دور افتادہ جزیرہ نما ہے جس کا نام کیپ گریم ہے۔ سرکاری طور پر اسے کیناؤک کہا جاتا ہے۔

’دنیا کے کنارے‘ کے نام سے مشہور اس خطے میں بہت کم سیاح پہنچتے ہیں لیکن جو لوگ آتے ہیں وہ پہاڑی چوٹیوں پر سرسبز اور لہلہاتے کھیتوں کے بجائے ڈرامائی چٹانیں، ہوا کے تیز جھونکے اور کالی ریت کے ساحل دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

دنیا کے ایک سرے پر الگ تھلگ ہونے کے باعث کیپ گریم کی خوبصورتی کو نہ صرف ان چھوا رکھا ہے بلکہ اسے ایک افتخار بھی بخشا ہے جس کا اظہار وہاں کے ہوا کی آلودگی ماپنے والے سٹیشن سے کیا جاتا ہے کہ ’یہاں کی ہوا دنیا کی صاف و شفاف ترین ہوا ہے۔‘

دنیا بھر میں پھیلے 25 ہوائی سٹیشنوں میں سے ایک کو سنہ 1976 میں کلف ٹاپ کیپ گریم میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کیپ گریم ایٹموسفیرک پولوشن سٹیشن (سی جی بی اے پی ایس) وہاں کی صاف شفاف ہوا کی ساخت کو جانچنے اور تجزیہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہاں کی فضا مقامی آلودگی کے ذرائع جیسے کہ کاربن کے اخراج یا صنعتی دھوئیں سے متاثر نہیں ہے

کامن ویلتھ کی سائنسی اور صنعتی تنظیم (سی ایس آئی آر او) کے سینیئر ریسرچ سائنسدان ڈاکٹر این سٹیورٹ کا کہنا ہے کہ ’کیپ گریم ایئرمانیٹرنگ سٹیشن کو مغرب سے آنے والی جو تیز ہوائیں ملتی ہیں وہ برفیلے جنوبی بحر اوقیانوس میں ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے وہاں پہنچتی ہیں اور اسی وجہ سے یہاں کی ہوا کو دنیا میں سب سے زیادہ صاف ہوا پایا گیا ہے۔’ ان کا یہ ادارہ آسٹریلیائی بیورو آف میٹرولوجی (بی او ایم) کا نظم و نسق دیکھتا ہے۔

یہ سٹیشن دنیا کی موسمیاتی تبدیلیوں کی تحقیق میں بھی ایک اہم حصہ ادا کرتا ہے، جس میں سٹریٹاسفیرک اوزون کی کمی کے ساتھ ساتھ موسم اور آب و ہوا کی قیمتی معلومات جیسے درجہ حرارت، بارش، ہوا، نمی اور شمسی تابکاری جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔ ماحولیات کی یہ پیمائشیں خاص طور پر اہم ہیں کیونکہ وہ اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ عالمی ماحول کی ساخت کس طرح تبدیل ہوئی ہے، اور یہ کس طرح بنتی رہتی ہے۔

جب عوام کو یہ خبر ملی کہ ہوا کے نمونے جمع ہو رہے ہیں ایسے لوگوں کی طرف سے بھی پیشکشیں آئیں جن کے گیراجوں میں سکوبا ٹینک تھے۔ ان ٹینکوں سے جو ہوا کے نمونے ملے اس سے یہ پتا چلا کہ ان کے پاس سنہ 1956 کی بھی ہوا موجود تھی۔