وہ سیارچہ جو 23 سال بعد ویلنٹائن ڈے پر زمین سے ٹکرا سکتا ہے

343

ناسا نے ایک نئے دریافت کیے جانے والے سیارچے کے سنہ 2046 میں زمین پر اثر انداز ہونے کا مبہم امکان ظاہر کیا ہے۔ ناسا نے اس بات کا اعلان منگل کے روز کی جانے والی اپنی ایک ٹویٹ میں کیا۔سائنسدانوں نے اس سیارچے کو 2023 ڈی ڈبلیو کا نام دیا تھا۔

سائنسدانوں کے مطابق ’تقریباً ایک اولمپک سوئمنگ پول کے رقبے جتنا یہ سیارچہ اگر زمین سے ٹکرایا تو ممکنہ طور پر وہ سنہ 2046 کو 14 فروری یعنی ویلنٹائن ڈے پر ہو گا تاہم ناسا کے مطابق ڈی ڈبلیو 2023 کے زمین سے ٹکرانے کا امکان 560 میں سے محض ایک فیصد ( نہ ہونے کے برابر) ہے۔

ناسا کے مطابق یہ سیارچہ زمین سے قریب ترین تقریباً گیارہ لاکھ میل کے فاصلے تک آ جائے گا تاہم محققین اب بھی اس حوالے سے مزید ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ پیشگوئی حتمی نہیں اور اس میں رد و بدل بھی ہو سکتی ہے۔ناسا کی خطرے کی فہرست میں یہ واحد خلائی چٹان ہے جو ٹورینو امپیکٹ ہیزرڈ اسکیل ( ایسا پیمانہ جس سے خلا میں پائے جانے والی اشیا کے ممکنہ زمینی اثرات کی درجہ بندی کی جائے) پر اول درجہ پر موجود ہے۔

ٹورینو امپیکٹ ہیزرڈ اسکیل خلائی اشیا کے زمین سے ٹکرانے کے خطرے کی پیمائش کرتا ہے اور اس میں ان خطرات کی صفر سے 10 تک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔اس پیمانے کے مطابق اسکیل پر صفر کی درجہ بندی کا مطلب اُس خلائی شے کو زمین کے لیے بے ضرر سمجھا جاتا ہے۔ناسا نے 2022 میں خلا میں ایک تجربے کے دوران انتہائی مہارت کے ساتھ اپنا ایک خلائی جہاز ایک سیارچے سے ٹکرا کر تباہ کر دیا تھا
ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری نے پیمانے پر ایک کی درجہ بندی سے متعلق وضاحت میں بتایا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ سیارچے کا زمین سے ٹکرانے کا امکان بہت کم ہے اور اس میں زمین پر بسنے والوں کے لیے تشویش کوئی بات نہیں۔‘جے پی ایل کے نیویگیشن انجینئر ڈیوڈ فارنوچیا نے خبر رساں ادارے سی این این کو بتایا ’اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔‘

امریکہ کے سائنسی جریدے ’سائنٹیفک امریکن‘ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگرڈی ڈبلیو 2023 زمین سے ٹکرا بھی جاتا ہے تو اس کا اثر ہرگز ویسا نہیں ہو گا جیسا قیامت خیز 66 ملین سال پہلے زمین سے ٹکرانے والے اس سیارچے کا ہوا تھا جس نے ڈائنوسارز کا نام و نشان مٹا دیا تھا کیونکہ اس سیارچے کی چوڑائی 12 کلومیٹر تھی۔

سائنسدانوں نے اگرچہ ڈی ڈبلیو 2023 کے زمین پر اثرات کو ممکنہ طور پر بے ضرر قرار دیا تاہم اگر یہ کسی بڑے شہر یا گنجان آبادی والے علاقے کے اوپر اترا تو بھی وہاں بسنے والوں کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو 2023 کے نصف سے بھی کم سائز کی ایک خلائی چٹان 10 سال پہلے روس کے شہر چیلیابنسک میں پھٹی تھی اور اس ایک جھٹکے کی لہر نہ صرف 200 مربع میل تک پھیل گئی تھی بلکہ اس کی ذد میں آ کر تقریباً 15 سو افراد زخمی ہوگئے تھے۔

اگرچہ اس سیارچے کا زمین سے ٹکرانے کا امکان نہ ہونےکے برابر ہے تاہم سائنسدان عرصہ دراز سے زمین سے کسی بھی خلائی چٹان یا سیارچے کے تصادم ہونے کی صورت میں اس کے اثرات سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔گزشتہ سال اکتوبر میں ناسا نے ڈارٹ مشن (ڈبل ایسٹرائڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ ) کےتحت اپنے ایک خلائی جہاز کے ذریعے ایک چھوٹے سیارچے کا راستہ کامیابی سے تبدیل کر دیا تھا۔

ناسا کے انجینئیر ڈیوڈ فارنوچیا نے اس تجربے کے حوالے سے کہا کہ ’یہی وجہ ہے کہ ہم نے ( خلائی جہاز کے ذریعے) اس مشن کو کامیابی سے مکمل کیا تھا اور ہم اس میں شاندار طریقے سے فتح یاب ہوئے۔‘