وہ بوئے گُل تھا کہ نغمہ ءجاں

تین عالمی اسلامی مفکرین کاماہ رمضان میںوصال

276

حضرت سید رابع حُسنی ندوی ؒ:(پیدائش :یکم اکتوبر 1929 ۔۔۔ وصال :13 اپریل 2023ءمطابق 21 رمضان المبارک 1444ھ)
وہ لوگ کتنے خوش نصیب اورنیک بخت ہوتے ہیں جن کے گھر اللہ رب العزت ایسی اولادوں کوجنم دیتا ہے جو آگے چل کراپنے دین و ملّت کے لئے روشن ستارہ ثابت ہوتی ہیں۔اُن کے علم و فراست ‘ دانش و حکمت سے ساری ملّت بلکہ ساری انسانیت فیض پاتی ہے ۔یہ برگزیدہ‘پاکیزہ اور حکیم الامت شخصیات اپنی تمام زندگی نیکیاں بانٹتی ہیں ۔ یہ کارِ خیر کرتے کرتے ایک دن اپنے مالک حقیقی کے پاس لوٹ جاتی ہیں۔ ایسی برگزیدہ شخصیات روزانہ پیدا نہیں ہوتی ہیں۔بلکہ صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ا نہی شخصیات اوراکابرین میں حضرت مولانا سید رابع حُسنی ندوی ؒ کا شمارہوتا ہے ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میںکیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

بروز جمعرات 13 اپریل2023ءمطابق 21 رمضان المبارک 1444 ہجری کو یہ افسوسناک خبرآئی کے آل انڈیا مسلم پرسنل لا ءبورڈ کے صدر حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی اس جہان ِ فانی سے رخصت ہو گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔ انھوں نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر کی حیثیت سے اپنی ملی‘ قومی اور مذہبی ذمہ داری بہت بہتر طریقے سے نبھائی ۔کسی کو انگشت نمائی کا موقع نہیں دیا۔انہی کے دور میں بابری مسجد کی شہادت کے مقدمے کا فیصلہ دیاگیا۔یہ فیصلہ ججوں نے عقیدے کی بنیاد پر دیتے ہوئے ہوئے بابری مسجد کی اراضی پر ہندوئوں کے حق کو حق بجانب قرار دیا تھا ۔ اس طرح اراضی پر رام مندر تعمیر ہونے کی راہ نکل آئی تھی اور آج مندر کی تعمیر کا کام آخری مراحل میں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ یکطرفہ تھا جس سے ملک کے مسلمانوں کی ہمت پست ہوئی تھی اور عدلیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔ایسے نازک وقت میں حضرت رابع حسنی ندوی ؒ نے مسلمانان ہندکو صبر و تحمل کی تلقین کی تھی

۔سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی قرار دیا تھا ۔حضرت کو اردو اور عربی زبان پر یکساں دسترس حاصل تھی ۔ وہ 30 سے زائد اردو اور انگریزی کتابوں کے مصنف تھے۔رابطہ عالمی اسلامی ‘ عالمی رابطہ اسلامی ادب ‘ آکسفورڈ اسلامک سنٹر‘ دارُالعلوم دیوبند ’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ دارالمصنفین اعظم گڑھ ‘ندوة العلماءلکھنو‘ اسلامک فقیہ اکیڈیمی انڈیا ‘ آل انڈیا ‘ملی کونسل‘دینی تعلیمی کونسل ‘ کُل ہند تحریک پیغام انسانیت اور کتنے ہی ملی ‘ مذہبی‘ دینی‘تعلیمی اداروں کے عہدوں پرفائز رہے ۔تقریبا 70سال تک ان اداوں اورتنظیموں کی بے لوث خدمت انجام دی ۔اللہ تعالیٰ نے انہی خدمات اورنیک کاموں کاصِلہ انھیںاس طرح دیا کہ 21 رمضان المبارک 1444ہجری کوانھیں اپنے پاس بلا لیا ۔

حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ علی میاں:( پیدائش: 5 دسمبر 1913 … وصال :31 دسمبر1999ء مطابق 23 رمضان 1420ھ)
عالم اسلام کی محترم بر گزیدہ شخصیت حضرت مو لانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ جو علی میاں کے نام سے مشہورتھے کا انتقال رمضان کے مبارک مہینے میں ہوا تھا ۔ انہوں نے 5 دسمبر1913ءکو اپنے وطن رائے بریلی میں ایک علمی اور مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اور بروز جمعہ 31 دسمبر 1999 مطابق 23 رمضان 1420 ہجری کو رائے بریلی میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے تھے۔ ان کے انتقال پر ملال سے نہ صرف برصغیر ہند پاک بلکہ سارے عالم اسلامی میں رنج و افسوس کی لہر دوڑ گئی تھی۔انھیں20ویں صدی کے معروف اسلامی مفکر دانشور مذہبی رہنما ‘ مقرر‘ادیب ہونے کا شرف حاصل رہا تھا۔

انھوں نے 500 سے زائد مذہبی و علمی کتابیں لکھیں جنہیں آج بھی ساری دنیا میں بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھاجاتا ہے۔ ان کی دینی خدمات کے لئے لیے 1980ء میں انھیںحکومت سعودی عرب کے باوقار ” شاہ فیصل ایوارڈ“کے اعزاز سے نوازا گیا تھا وہ 1951 میں جب دوسری بار حج کے لیے مکہ مکرمہ گئے تھے تو کلید بردار کعبتہ اللہ نے دو دن کعبہ کا دروازہ کھولے رکھا تھا اور علی میاں ؒ کو ان کے رفقاء کے ساتھ اندر جانے کی اجازت دی تھی ۔ علی میاں ؒ 1984 ءمیں رابطہ ادب اسلامی کے صدر رہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس جلیل القدر عہدے پر فائزرہے کر انھوں نے مسلمانانِ ہند کی رہبری کی تھی وہ کئی دینی اور تعلیمی اداروں کے سربراہ بھی رہے تھے۔ ان کے انتقا ل پُرملال پر ناندیڑ مہاراشٹر سے شائع ہونے والے روزنامہ ” ورق تازہ “ نے خصوصی اداریہ تحریر کیا تھا جو اخبار کی یکم جنوری 2000ء کی اشاعت میں صفحہ اول پرسیاہ حاشیے میں شائع کیا گیا تھا۔ مولانا علی میاں ندوی ؒ دنےائے اسلام کے مسلمانوں کے سینہ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

حضرت مولانا محمد وحید الدین خاں ؒ:( پیدائش: یکم جنوری 1925 اعظم گڑھ ۔۔۔وصال 21 اپریل 2021 دہلی۔ مطابق جمعہ 9 رمضان 1442 ہجری)
مولانا وحید الدین خان اسلامی مفکر دانشور اور صاحب طرز ادیب سائنٹیفک نقطہ نظر کے حامل دور اندیش مذہبی و سماجی رہنما تھے ۔ جن کا شمار اپنے وقت کی عالمی سطح کی 500 بااثر مسلم شخصیات میں ہوتا تھا۔200 سے زائد کتب کے مصنف اور بانی ”امن ورو حانیت سنٹر“ مولانا وحید الدین خاں کی ادارت میں دہلی سے اردو ماہانہ دینی ‘علمی مجلہ ”الرسالہ“ شائع ہوتا تھا۔جو ہندی اور انگریزی میں نکلتا تھا۔ الرسالہ کے قارئین بے شمار تھے۔ انہوں نے اپنے ”الرسالہ“ کے ذریعہ مسلمانوں میں سائنٹیفک سوچ کو پیدا کرنے کی عملاً کامیاب کوشش کی ۔ چند سال قبل مولانا وحید الدین خاں ناندیڑ(مہاراشٹر) کے ایک معیاری عصری تعلیمی ادارے ثناءہائی سکول و جونیئر کالج میں ایک تعلیمی پروگرام میں تشریف لائے تھے ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزنامہ ”ورق تازہ “ناندیڑ کے مدیراعلی محمد تقی نے مولانا سے ایک طویل انٹرویو کیا تھا جو” ورق تازہ“ اورالرسالہ دہلی میں بھی شائع ہوا تھا۔

ان کے انٹرویو کا لب ولُباب یہ تھا کہ مسلمان دینی تعلیم کے ساتھ ہی عصری تعلیم حاصل کریں اور عقلیت پسندی سے کام لےں۔دنیا میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں کچھ لوگ اشیاءکو عقیدت کی آنکھ سے پرکھنے کی عادی ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ چیزوں کو عقل کی کسوٹی پر رگڑ کر پرکھنے اور ان کی حقیقت تک پہنچنے کے قائل ہوتے ہیں۔مولانا وحید الدین خان کا تعلق آخر الذکر لوگوں میں ہوتا ہے ۔ایک کٹر مذہبی عالم دین ہونے کے باوجودمولانا ساینٹیفک نظر رکھتے تھے ۔اسی وجہ سے ان کی تحریروں میں زندگی کے حقائق کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔وہ عقل کی روشنی میںزندگی کے ہرمسئلہ کا حل تلاش کرتے ہیں۔ انہیں حکومت ہند نے پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازا تھا۔ملک میں جاری کوویڈ19 وباءکے دوران 21اپریل 2021ء بروز جمعہ 9 رمضان 1442 ہجری کو مولانا نے دہلی کے ایک اسپتال میں آخری سانس لی اور اپنے معبود حقیقی سے جا ملے۔ انہیں دہلی کے پنچ پیر قبرستان نزد بستی نظام الدین اولیاءمیں سپردخاک کیا گیا ۔خدامغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
پھر یوں خدائے برتر نے مندرجہ بالا تینوں عالمی شہرت یافتہ عالم دین کو ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے پاس بلوا لیا۔
وہ صورتیں الٰہی کس مُلک بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

محمد تقی (ناندیڑ)۔9325610858