وادی میں بے وفائی

0 19

جب بھی گورنر رول کا نفاذ جموں کشمیر میں لایا گیا وہاں کے حالات بد سے بد تر ہوئے اور دوری و علیحدگی میں اضافہ ہوا

فردوس ٹاک

انڈین ایکسپرس۔جون 2018ئ

ترجمہ و تلخیص : محمد بہاؤ الدین ایڈوکیٹ

موبائل : 9890245367

مورخ و فلاسفر جارج سنتیانہ کے مطابق تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ ےہ نظریہ ہمارے سیاسی انتظامیہ کے لئے مثال کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ جب کہ جس طرح ےہ لوگ پبلک اور پرائیوٹ پالیسی میں عمل پیرا ہے۔

جموں کشمیر میں گورنر رول کے نفاذ کے لئے تاریخ کو دہرایا گیا ہے۔ مضبوط مرکزی حکومت نے یہاں کے حکمران پارٹی کے ڈور اور دھاگے کھینچ کر اختیارات کو مرکز کی حد تک گورنر کے ذریعہ محدود کردیا ہے اور اس طرح علاقائی جماعتوں کو وہاں بے عمل کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے حالات کو خوداپنے تئیں برداشت کرئے۔

دو سیاسی جماعتوں کے درمیان گفتگو کے چرچے اور سیاسی خیالات کی ادلا بدلی جو علاقے کی سیاسی حدود تھی جس میں مفتی محمد سعید نے ریاست کے ۹۴ویں چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لیا اور اس طرح کشمیر کے گورنر کے 49 ویں دن کے احد کاخاتمہ ہوا کیونکہ مارچ 2015 میں معلق اسمبلی وجود میں آئی تھی۔

جموں کشمیر کی پیوپلس ڈیماکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیر آعظم نریندر مودی کی موجودگی میں گفتگو کا آغاز ہوا۔ ےہ ایک کبھی نہ وقوع پذیر ہونے والا واقعہ تھا کہ وزیرِ اعظم خود وزارت کی تشکیل کے وقت موجود تھے جہاں اُن کی پارٹی نے علاقائی جماعت کے ساتھ حکومت کے ساتھ حلیف بن کر اتحاد کیا۔ وزیرِ اعظم کے علاوہ بی جے پی کے نیشنل پریسیڈنٹ امیت شاہ ‘ سابقہ صدر اڈوانی‘ مرلی منوہر جوشی‘ یونین منسٹر جتندر سنگھ‘ ہریانہ کے چیف منسٹر منوہرلال کھٹر اور دیگر ممتاز شخصیات جو اس موقع پر حاضر تھی۔ اس اتحاد کے علامات واضح تھے کہ جموں کشمیر کے نئے چیف منسٹر کو پرائم منسٹر کی خود سرپرستی حاصل تھی۔ جنہوں نے ہندوستان بھر کی عوام سے حکمرانیت کے لئے عہد لیا تھا۔مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی محبوبہ مفتی نے اقتدار کو سنبھالا اُن کے والد کے زمانے میں جو وعدہ ہوا ہے وہ اُن کے لئے ناگوار ہی تھا لیکن پھر بھی وہ اپنے والد کے دیئے وعدہ کے مطابق ایجنڈا کی طئے شدہ پالیسی کو جاری رکھنے کا عہد کرتے ہوئے اُس کے مطابق حکمران بنی اور ایجنڈا آف الائنس خود مفتی محمد سعید کے لئے پہلی کامیابی تھی کہ جس میں بی جے پی نے بول چال کے لئے پہل کی کہ آرٹیکل ۰۷۳ کو قائم رکھتے ہوئے پاکستان سے گفتگوکی جائے گی اس طرح علحیدگی پسندوں اور کشمیر کے معاملات کو سلجھایا جائے گا۔
اس طرح حکمرانیت کے دوران ان کی گہری و نمایاں عوامی پسندیدگی دیکھی گئی۔ پی ڈی پی کی زمینی حقیقت ےہ تھی کہ وہ گفتگو ‘ ڈائیلاگ ‘ افہام و تفہیم کو دوبارہ پھر سے پاکستان کے ساتھ کیا جائے تاکہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے راستہ طئے ہو۔

اپنی شخصیت و عہدہ کا لحاظ نہ کرتے ہوئے مستعفیٰ چیف منسٹر نے عام معافی کے ذریعہ گیارہ ہزار پتھر مارنے والوں کو رہائی دلوائی اور اس طرح گفت و شنید کرنے والے ثالث کا تقرر کیا۔ اُسی طرح اندرونی مختلف جماعتوں کے ساتھ بات چیت بھی کہ اور سب سے اہم پچھلے رمضان میں سیز فائر کا اعلان کیا۔

وزیرِ اعلیٰ کا مسلسل اس سیز فائر کو بند کرنے پر اصرار تھا لیکن اسے مرکزی حکومت نے انکار کردیا۔ اس دوران سکیوریٹی فورسس نے وزیرِ اعلیٰ سے زیادہ مرکز پر اثر انداز ہوا۔ جب کہ وہ چاہتی تھی کہ تشدد کا معاملہ ختم ہوجائے۔ ان کی کوششوں سے ےہ بظاہر نظر آیا جب یونین ہوم منسٹر راجناتھ سنگھ نے ۷ ہزار کے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ےہ نوجوان سری نگر شہر میں دل کی حیثیت رکھتے ہیں۔جب کہ ےہ پہلا موقع تھا کہ علیحدگی پسندوں نے مرکزی وزیر کی آمد کے وقت کسی بند یا اسٹرائیک کا اعلان نہیں کیا تھا۔ جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ اپنے طریقہ کار میں تھوڑی سی نرمی پیدا کی ہے۔

ترقیاتی معاملے میں محبوبہ مفتی کی حکومت نے چند تاریخی اقدامات کیئے ہیں۔ جس میں 80 ہزار روپیئے کا اسپیشل فائنانس پیکیج مرکز نے دیا تھا تاکہ یونیورسٹیوںکا کلسٹر اور ۲ آئی ائی ایم ایس اور آئی ایس ان دونوں جوڑواں راجدھانی میں قائم کیا جائے اور اس طرح ۵ میڈیکل کالجس اور نیشنل لا¿ یونیورسٹی کے لئے قانون سازی بھی کی گئی۔ یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ آرکیٹیکچاور پلاننگ اسکول کی تعمیر کا آغاز ہوا جہاں 40 ہزار مزدور کام کررہے تھے۔ اُسی طرح این وائی سی کے رضاکاروں کی پابندی کو ختم کیا گیا جب کہ سابقہ حکومت نے اُن پر پابندی لائی تھی۔ ۶ فیصد سماج کے کمزور طبقات کے لئے تحفظات دیئے گئے‘ اُسی طرح پہاڑی کمیونٹی کو بازآباد کرنے کے لئے کوشش کی گئی اور ۳ فیصد تحفظات دیئے گئے۔ اس کے علاوہ تیسری جنس والوں کے لئے علیحدہ کیٹگری کا تعین کیا گیا جو رورل بیک ورڈ ایریاکے مطابق تھے۔ جموں و سری نگر کے درمیان رنگ روڈس کی تعمیر اور کسانوںکا اُن کے کریڈیٹ کارڈ کے ۰۵ فیصد قرض کی معافی کی گئی۔ کشمیر پولس سروس میں کیڈر کا تعین کیا گیا۔ اُسی طرح کشمیر سول ایڈمنسٹریشن کو بھی باقاعدگی دی گئی۔ ساتواں پے کمیشن ریاستی ملازمین کو دیا گیا اور یہاں کے قبائیلیوں کی خاطر ٹرائیبل افیئر منسٹری کا قیام کرتے ہوئے مختلف انشورنس اسکیمس‘ شادی کی امداد کے لئے اسکیم جسے لاڈلی بیٹی اور اسکوٹی اسکیم کا آغاز کیا گیا اور اگر کوئی عورتیں زمین خریدتی ہیں تو اُن کے لئے رجسٹریشن فیس معاف کی گئی۔

الائینس کا خاتمہ منگل کو ہوا جب بی جے پی نے اپنا ساتھ چھڑا لیا۔ محبوبہ مفتی نے اپنا استعفی گورنر کو دے دیا۔ اس طرح یہاں ایک عمومی نظریہ پایا جاتا ہے کہ ریاست میں پی ڈی پی کی امن کے لئے ےہ کوشش تھی اور یہی بنیاد دونوں پارٹیوں میں اتحاد کے درمیان بنیاد تھی۔ چیف منسٹر کو تصور کیا جارہا تھا کہ وہ مرکزی حکومت کے ماتحت ہے اور مرکز کشمیر کے حالات درست کرنے کے لئے پوری طرح ملٹری پاور کا استعمال کررہا ہے اور دلی اس بات کے لئے تیار نہیں تھی کہ وہ محبوبہ کی کوششوں‘ اُن کے دلائل اس قسم کی خون خرابے کے خلاف تھی۔

گورنر رول جموں کشمیر کے لئے کوئی نیا نہیں ہے اس کا اطلاق اس سے پہلے ۷ مرتبہ کیا گیا تھا۔ لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے ہر مرتبہ مرکز نے ےہ فیصلہ وہاں کے حالات کے لئے جب بھی لیا وہ پہلے سے زیادہ خراب ہوئے‘ لوگ دور ہوتے چلے گئے‘ جمہوریت میں اعتماد مجروح ہوا اور اس طرح یہاں سب لوگ اس طریقہ سے متاثر ہی نہیں بلکہ متظرب ہوئے۔ دلی میں حکمرانی کرنے والوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔بی جے پی نے وہی کیا جو اس سے پہلے کانگریس نے کیا تھا۔ دو دہوں سے زیادہ عرصہ لگا کہ علاقائی جماعتیں کس طرح عوام میں اعتماد پیدا کرسکے‘ کس طرح اُن میں جمہوریت کے عقیدہ کو مضبوط کرئے۔ وہ پھر ایک مرتبہ متزلزل ہوا۔

جمہوریت کی بازیابی ہوگی‘ سیاسی نظام پھر بھی واپس ٹریک پر آئے گا۔ حکومتی ادارہ جات کام کرنا شروع کریں گے۔ پھر بھی آج کا ےہ جولائی منگل کے دن کا تاریخ میں اس طرح یاد کیا جائے گا کہ اور ایک دن ہے جس میں کشمیریوں کے ساتھ پھر سے بے وفائی کی گئی۔