نصیر الدین شاہ کے ساتھ : نئی راجستھانی حکومت نے یہ پیام دینا چاہیے کہ وہ کسی بھی قیمت پر آزادانہ تقریر و تحریر کی محافظ ہوگی
اداریہ : انڈین ایکسپریس
25-12-2018
ترجمہ و تلخیص : محمد بہاؤ الدین ایڈوکیٹ
موبائل : 9890245367
ہندو دائیں بازو والوں کی جانب سے نصیر الدین شاہ کے خلاف حملہ کیا جارہا ہے۔ جب انہوں نے پچھلے ہفتہ یہ کہا کہ یو پی کی حکومت ایک پولس آفیسرکی موت کے باوجود اُس پر اُس سے زیادہ گائے کی اہمیت دی گئی ہے۔ یہ بیان فلم کار نے اُس وقت دیا جب عوامی تشدد کے ذریعہ سے اُس پولس آفیسر کی موت واقع ہوگئی۔ اُس نے اس واقعہ پر بے چینی محسوس کی اور اس طرح وہ بے چینی اُس کے بچوں کے لئے بھی تھی۔ اس لئے کہ اگر کل کوئی ہجومی تشدد اُنہیں گھیر لے اور ےہ پوچھے کہ تم ہندو ہو یا مسلمان؟اُن کے پاس کوئی جواب نہیں۔پچھلے ہفتہ اجمیر کے لٹریری فیسٹیول کے منتظمین نے ان کے پروگرام کو اسی لئے منسوخ کیا کیونکہ وہاں کے بی جے پی کے یووا مورچہ کے ممبروں نے دھمکی دی کہ میرے اُس پروگرام میں شرکت کی وجہ سے احتجاجکیا جائے گی۔ ہنوتوا کی لہر اس وقت پھیلتی جارہی ہے اور بی جے پی کے تائید کرنے والے شاہ کے دوست انوپم کھیر ‘جو فلم برادری سے تعلق رکھنے والے ہیں نے بھی شاہ کے اس ریمارک پر تنقید کی ۔ یو پی کے بی جے پی چیف مہندر ناتھ پانڈے نے کہا کہ شاہ جو کہ ایک اچھے ایکٹر ہےں لیکن اب انہوں نے اپنی شخصیت کو اُس کردار میں ڈھال لی ہے جس کا انہوں نے فلم سرفروش میں پاکستانی ایجنٹ کا کردار ادا کیا تھا۔ےہ فلسفہ نما بیانات حد سے نکل کر دھمکیوں میں تبدیل ہوگیا۔ شاہ ایک قومی خزانہ ہیں۔ حالانکہ اُنہوں نے جو کہا ہے وہ استسنیات میں سے نہیں ہے۔بہت سے دیگر لوگوں کی جانب سے بھی ان جذبات کی گونج سنائی دی اور اس طرح کے جذبات جو یو پی میں گﺅ رکھشکوں نے پیدا کی ہےں قابلِ اعتراض ہے لیکن یو پی حکومت نے ان کے خلاف کاروائی کرنے سے انکار کی ہے۔
اجمیر کالٹریری فیسٹیول ہہ ایک عظیم زبانوں کے گروہوں کا مرکز تھا جہاں فلسفے و توفیقیت پائی جاتی تھی۔ لیکن شاہ کے پروگرام کو منسوخ کرنا جہاں اُن کی کتاب کا اجراع ہونے والا تھا اس بات کا مظہر ہے کہ اس وقت یہاں کا موسم Polarization کی جانب رواں دواں ہے ۔ بالخصوص راجستھان‘ پچھلے چند برسوں میں کئی فرقہ وارانہ Mobilizationکے واقعات رونما ہوئے ہیں جو مذہبی اقلیت اور روشن خیال لوگوں کے خلاف تھے۔ کم سے کم اُن تین واقعات کو دیکھا جائے جس میں ہجومی تشدد نے الوار میں برپا کیا تھا۔ اس سے پہلے پہلو خان کا قتل ہے جسے متشدد ہجوم نے قتل کیا اور اُس کے خلاف ہی فردِ جرم عائد کیا گیا کہ وہ گائے کو اسمگل کرنے والا ملزم تھا۔ ۷۱۰۲ءمیں ہجومی تشدد اُس وقت پھوٹ پڑا جب سنجے لیلا بھنسالی کی فلم پدماوتی ریلیز ہونے والی تھی اور حکومت بھی اُن ہی کے ساتھ کھڑی تھی۔ بجائے اس کے وہ قانون اور دستوری حقوق جیسے آزادانہ اظہارِ خیال وغیرہ کی حفاظت نہ کرسکے۔ وسندھرا راجے سندھیہ کی حکومت نے کوشش کی کہ اس فلم کو ریلیز کیا جائے۔ متشدد لوگ جو ہم عصر آرٹ کے ماننے والے نہیں تھے انہوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی۔ ۵۱۰۲ءکے جئے پور میلے میں بھی پلاسٹک کی گائے کے بہانے احتجاج کیا گیا۔ ان تمام واقعات کی وجہ سے انتظامیہ بشمول پولس وہاں متاثر ہونے والے لوگوں کے ساتھ کم لیکن ان متشدد گروہ کے ساتھ نظر آتی ہے۔ گورنمنٹ کی خود کے ترجیحات و آغاز کو اس بات کی اہمیت دی گئی کہ درسی کتب کو نئے سرے سے لکھا جائے جو اکثریتی طبقہ کے خیالات کے مطابق ہو۔ اور اس طرح سے ےہ کھلے ذہن و آزادانہ خیال رکھنے والے آوازوں پر اثر انداز ہوا۔
نئی حکومت کے سامنے جو اس وقت سب سے زیادہ چیلنج درپیش ہے کہ وہ تربیت یافتہ اُصول جو عوام کے سامنے ہیں اور اس پائے جانے والے خلاء کو راجستھانی حکومت تحفظ کرئے۔ اجمیر واقعہ کے فوری بعد اُس وقت چیف منسٹر اشوک گہلوت نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ” انتظامیہ پوری طریقے سے تیار ہے کہ وہ فیسٹیول کو پر امن طریقہ سے منعقد کرائے“۔ اس سے ایسا واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کے آزادی¿ حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔ گہلوت کے انتظامیہ کو اس بات کی ضرورت تھی کہ لوگوں کو مطمئن کرواتے ‘ سمجھاتے نہ کہ انہیں ٹھگ اور ہجوم کی حیثیت سے حکمرانی کرنے والے مجمع کو چھوڑ دیتے ۔ ہندوستان کبھی آرٹسٹوں کا گلا گھونٹنے والوں کے خلاف تھا اب انہی کے ہاتھوںانہی کے ملک میں اُن کی تحقیر ہورہی ہے؟ عظیم تر کلاسیکل میوزیشین بڑے غلام علی خان نے پاکستان میں اپنے گھر کو چھوڑ کر ہندوستان میں اپنے آرٹ کی نمائش کے لئے واپس آئے۔ حکومت اس تشدد پسند اجتماع کو جو غیر فنّی ہیں اور چاہتے ہیں کہ آرٹسٹوں کا قلاقمع کیا جائے ایسی آزادی کی اجازت نہیں دیتی۔