نبی رحمت ﷺ پیغمبر علم وہدایت

القی معراج قاسمیہ

فاضلہ معہد عائشہ الصدیقہ ؓ قاسم العلوم للبنات دیوبند

قرآن کریم نے نبی رحمت ﷺ کے متعدد اوصاف بیان کئے ہیں،کہیں آپ کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا کہا گیا ہے،کہیں داعی ومبلغ کہا گیا ہے،کہیں سراجا منیرا اور کہیں معلم علم وحکمت اور مزکیئ اخلاق کہا گیا ہے،چنانچہ نبی رحمت ﷺ کی سیرت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ آپ کو معلمِ علم وحکمت ہونے کا خاص مرتبہ حاصل ہے،پوری دنیائے علم ومعرفت حکمت ودانائی کے نور سے منور ہے قرآن کریم نے نبی رحمت ﷺ کی اس صفت عظیم کی طرف اشارہ کیا ہے،کہ نبی رحمت ﷺ کی بعثت سے پہلے پوری دنیا ضلالت وگمراہی،جہالت وناخواندگی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں تھی،دنیائے انسانیت پر نبی رحمت ﷺ کے دیگر عظیم احسانات کے علاوہ ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ آپ نے دنیا کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف گامزن فرمایا،خود نبی رحمت ﷺ نے اپنے مشن کی وضاحت کی ہے،حضرت ابوموسیٰ اشعریٰ ؓ سے مروی ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رشد وہدایت اور علم کا جو پیغام دیکر مجھ کو دنیا میں مبعوث کیا ہے اس کی مثال موسلادھار بارش کی ہے،جو زمین کے کسی خطے پر ہو اور اس خطے کے بعض حصے پانی کو قبول کرلیں اور جذب کرلیں تو وہاں کثرت سے سبزہ اور ہریالی آجاتی ہے،اور زمین کا کچھ حصہ ایسا بھی ہوتا ہے جو پانی کو روک لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ا سے لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے کہ خود پیتے ہیں اور دوسروں کو پلاتے ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں اور زمین کا کچھ خطہ ایسا ہوتا ہے کہ جو پانی کو قبول نہیں کرتا ہے اور نہ ہی جذب کرتا ہے اور نہ وہاں سبزہ اگتا ہے،یہی پہلی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں تفقہ حاصل کیا اور اس سے فائدہ اٹھایا اور میرے لائے ہوئے پیغام سے استفادہ کیا لہٰذا خود بھی سیکھتا ہے اور عمل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے میرے لائے ہوئے پیغام پر نہ کوئی توجہ کی اور نہ اللہ کی اس ہدایت کو قبول کیا جو میں لیکر آیا ہوں.

تاریخ عالم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی رحمت ﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی مختلف قوموں میں علم کا رواج بہت محدود تھا ناخواندگی اور جہالت کا دور دورہ تھا سب کو علم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی مخصوص افراد یا طبقات جیسے ارباب کلیسا کی علم پر اجارہ داری تھی اور ان کا علم بھی محدود تھا مغربی قومیں جہالت ناخواندگی کا شکار اور خونی جنگوں میں ملوث تھیں،جس کا اعتراف خود مغربی مؤرخین نے بھی کیا ہے،آج جو یورپ مسلمانوں کو جاہل وناخواندہ قوم ہونے کا طعنہ دیتا ہے اور اس کی ذمہ داری اسلام پر ڈالتا ہے،مسلمان کو غیر متمدن اورغیر مہذب قوم ہونے کا طعنہ دیتا ہے وہی یورپ ہے جس نے مسیحیت کی ماتحتی میں ہزار سالہ مدت ایک ان پڑھ قوم کی حیثیت سے بسر کی ہے جس دوران میں یورپ کے بڑے بڑے لیڈر ان پڑھ اور اورناخواندہ تھے جیسا کہ لاوسٹ رامبو Lavisset Rambaud اپنی کتاب تاریخ عام (History Generale) میں لکھتا ہے انگلیڈساتویں صدی عیسوی سے لیکر دسویں صدی عیسوی تک انتہائی غریب اور پسماندہ تھا خارجی دنیا سے بلکل کٹا ہوا تھا،وحشت وبربریت اور درندگی کا دور دورہ تھا،مکانات کچی مٹی کے بنائے جاتے تھے،مہلک امراض اور وبائیں عام تھیں،انسان جانوروں سے بھی گیاگزرا تھا،سردار قوم بھی اپنی پوری فیملی کے ساتھ ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں رہتا تھا،مؤرخ ڈریپر (Draper John william)کہتا ہے کہ یورپ میں جہالت کا دور دورہ تھا اوہام وخرافات کی حکمرانی تھی،علاج ومعالجہ سب مقدس مقامات کی زیارت پر منحصر رہ گیا تھا،فن طب مردہ ہوچکا تھا،رابرٹ برے فالٹ (Robert Briffautt)لکھتا ہے پانچویں صدی عیسوی سے دسویں صدی عیسوی تک یورپ پر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی مسلمانوں سے استفادے کے بعد ہی ان میں علم وتمدن کا رواج شروع ہوا،دسویں صدی عیسویں میں یورپ میں ارباب کلیسا اور اصحاب علم کے درمیان شدید کشمش جاری تھی سیکڑوں اہل علم کو کلیسا کے معاندانہ رویہ کی وجہ سے تختہئ تار پر چڑھایا گیا تھا،

اٹلی،فرانس،اسپین اور جرمنی میں عقائد وتعلیم کی چھان بین کے لئے تحقیقی عدالتیں قائم کی گئیں اور ارباب علم ودانش کو کفر والحاد کے الزام میں گرفتار کرکے سفاکانہ سزائیں دی گئیں ایک محتاط اندازے کے مطابق جو لوگ ان عدالتوں کی بھینٹ چڑھے ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے،جن میں 32ہزار کو زندہ جلایا گیا تھا،ایسے اور بھی بہت سارے واقعات ہیں جن کو ڈروپر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے،یہ حال تھا نبی رحمت ﷺ کی بعثت کے وقت آج کی متمدن اور موڈرن دنیا کا جو صدیوں تک جہالت وناخواندگی کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہیں،نبی رحمتﷺ کی بعثت کے بعد علم کی روشنی پھیلنی شروع ہوئی اسی نبی امی نے علم کو ایسا عزو وقار اور علماء کی ایسی قدر ومنزل بڑھائی کہ کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے آج پھر اس بات کی بھرپور کوشش ہورہی ہے کہ مسلمانوں کی بیداری سے پہلے ہی اسلامی سرچشموں سے یورپ کا استفادہ اور کسب فیض کو چھپایا جائے،یہ روشن تاریخ سے ناواقفیت یا حقیقت سے چشم پوشی پر مبنی ہے،جبکہ بعض انصاف پسند فضلاء اس میدان میں مسلمانوں کے احسان اور فضل کا اعتراف کرتے ہیں۔آج کا یورپ جو مسلم دنیا کو ناخواند،غیر متمدن اور غیر مہذب ہونے کا طعنہ دیتاہے حقیقتاً اس یورپ کو تہذیب وتمدن اور زندگی گزارنے کا سلیقہ اسلام نے سیکھا یا ہے،علم وتحقیق کی راہ ان کو اسلام نے دکھائی ہے اور آج بھی یہ اسلامی تہذیب کے سرچشموں سے ہی فیض حاصل کررہے ہیں،افسوس اس بات کا ہے کہ نبی رحمتﷺ جن کا پیغام تھا کہ علم کو حاصل کرو اور جن کی پیغام کی تشریح کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلی ؒ نے علم کو نافع اور غیر نافع کے درمیان تقسیم کیا تھااسی نبی کے ماننے والوں نے آج علم نافع کو حاصل کرنا ترک کردیا ہے،تجارت، معیشت،اخلاقیات،معاملات،سائنس اور ٹکنالوجی کے دینی اور عصری علوم دونوں سے ہی مسلمانوں کو کوئی دلچسپی نہیں رہی نتیجتاً مغرب نے ہمارے آباؤواجداد کی تحقیقات کو آگے بڑھاکر اس پر اپنا لیبل لگالیا اور ہم رازی،غزالی،ابن سینا اور ابن رشد کے انتظار میں آج بھی بیٹھے ہوئے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نبی رحمت ﷺ کی تعلیمات کو سمجھیں اور مسلم دنیا میں ہر فن کے ماہرین کو پیدا کرنے کے لئے محنت اور جدوجہد کریں تاکہ دنیائے علم وفن پر ایک مرتبہ پھر نبی رحمتﷺ کے ماننے والوں کا پرچم لہرا سکے اور ایک مرتبہ پھر مسلم دنیا سے پورے عالم کوفکر وتحقیق،سائنس وفلسفہ،تجارت ومعیشت اور سماجی زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھنے کا موقع ملے۔یہ ہم پر نبی رحمت ﷺ کے امتی ہونے کی وجہ سے واجب ہے کہ ہم میدان علم وتحقیق کے شہسوار بنیں اور تحقیقی میدان میں نئے علم وفن کے زاویہ قائم کریں۔رب کریم سے دعا گو ہوں کہ وہ مسلم دنیا کو علوم وفنون کے تئیں بیدار کرے اور مسلمانوں کو علم وفن کے حصول کیلئے کوشش کرنے والا بنائے آمین ثم آمین