ممبئی میں پترکار وکاس فاونڈیشن کے زیر اہتمام ”اُردو صحافت معاصرین کی نظرمیں“ سمینار کا کامیاب انعقاد

معروف صحافیوں سدھیرکلکرنی ‘ ایم پی ندیم الحق ‘ صادق ایدیزذہبی‘حسن کمال ‘ محمدتقی(ناندیڑ) شاہدلطیف ‘جتن دیسائی ‘انوراگ کی تقاریر

ممبئی:۔(پریس ریلیز) ہندوستان میں اردو صحافت کو دو سو سال مکمل ہونے پر صحافیوں کی تنظیم پترکار وکاس فاونڈیشن کے زیراہتمام17ستمبرکی صبح گیار ہ بجے ممبئی کے حج ہاوس میںیک روزہ سمینار کا انعقاد کیاگیا۔”اردو صحافت معاصرین کی نظر میں“ کے عنوان سے منعقدہ اولین سیشن میں تنظیم کے صدر یوسف رانا نے غرض و غائیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ پورے ہندوستان میں اردو صحافت کادو سو سالہ جشن منایاجا رہاہے تو ممبئی کیوں پیچھے رہے۔ بوہرہ فرقہ کی نمائندگی کرنے والے صادق ایدیزذہبی نے شہید صحافی مولوی باقر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بوہرہ پیشوا سیدنا برہان الدین،سیدنا طاہر سیف الدین اور سیدنا مفضل کو اردو زبان سے شغف تھا اور تینوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہے سچا مسلمان وہی ہے جس کی زبان اورہاتھ سے کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچے۔

اردو صحافیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ صحیح خبریں قارئین تک پہنچائیں۔انگریزی کی معروف صحافی جیوتی پنوانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو اور انگریزی زبان کےجرنلسٹوں کے مابین ڈائیلاگ ہونا ضروری ہے۔ جب ہم ایک ہی پیشہ سے وابستہ ہیں تو ہمارے نظریات میں اختلافات کیوں۔ ممبئی فسادات ہوں یا مسلمانوں کی گرفتاریوں کا معاملہ انگریزی زبان کے صحافی صرف پولس کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ گردانتے ہیں جبکہ اردوصحافت ا س سے اجتناب برتتی ہے۔نوبھارت کے انوراگ ترپاٹھی نے اس موقع پر کہا کہ پوری صحافی برادری دور حاضر میں مشکل دور سے گزر رہی ہے۔اردو صحافت کی حالت تو مزید ابتر ہے۔اس زبان کا جنم ہی شہادت سے ہوا ہے جبکہ دوسری زبانوں کے اخبارات کی نیو تجارت سے ہوئی۔ہم نے تو جرنلسٹوںکو ہمیشہ غریب ہی دیکھا ہے لیکن آج چینلوں سے منسلک اینکرس کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔سیشن کے صدر گجراتی مڈے کے سابق ایڈٹرجتن دیسائی نے کہا کہ اردو صحافت کی تاریخ ایک روشن تاریخ رہی ہے آج اگر حالات دگرگوں ہیں تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے کہاں غلطی کی ہے؟ ہم اس کا ازالہ کر کستے ہیں۔اردو کا پہلا اخبار پنڈت ہری ہردت نے شروع کیا تھاماضی میں زیادہ تر اردواخبارات کے مالک ہندو ہواکرتے تھے کسی بھی زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

ہندوستان میں اردو صحافت کاآغاز اس وقت ہواتھا جب یہاںا نگریزوں کی حکومت تھی ۔جیسے جیسے اردو صحافت کاسفر آگے بڑھتاگیااردوصحافیوں پر انگریزوں کاعتاب بڑھتاگیا اسکے باوجود یہ سفررُکا نہیں۔ ان خیالات کااظہار ن ناندیڑ سے تشریف لائے روزنامہ ”ورق تازہ“ کے مدیراعلیٰ اور ورق تازہ آن لائن نیوزپورٹل (waraquetaza.com) کے مالک محمدتقی نے کیا۔انھوں نے کہاکہ اردو صحافت کاسفر 200سال پرمحیط ہے یہ 200سال کوئی معمولی بات نہیں ہے۔انگریزو ں کے زمانے میں اردو اخبارات نکلتے تھے جو برطانوی حکومت پرکھُل کربے باکانہ اندازمیں تنقید کیاکرتے تھے اسی جرم میں صحافیوں کو پھانسی کے پھندوں پرچڑھایاجاتاتھا ۔ تاہم اُردوزبان زندہ رہی اُردو صحافت زندہ رہی۔محمدتقی نے کہاکہ وہ جس علاقے کی نمائندگی کررہے ہیں وہ حیدرآباد دکن کہلاتا ہے اس وقت ریاست حیدرآباد(دکن ) ہندوستانی کی سب سے بڑی مسلم ریاست تھی جس پر آصف جاہی حکمرانوں کی حکومت ہواکرتی تھی۔یہ عجیب اتفاق ہے آج 17 ستمبر ہے اور آج سے 74سال قبل 17 ستمبر1948ءکاسقوط ہواتھااوراسے انڈین یونین حکومت (بھارت) میں ضم کردیاگیا تھا۔آصف جاہی حکمرانوں نے اردوزبان کواپنی ریاست کی زبان اول سرکاری زبان کادرجہ دیا تھا یہاں سے کئی اُردو اخبارات شائع ہواکرتے تھے ۔1948ءسے قبل حیدرآباد سے اردو روزنامہ”رہبر دکن “ شائع ہواتھا جو بعد میں ”رہنمائے دکن“کے نام سے نکالاگیااور آج بھی پابندی سے شاےع ہوتا ہے۔انھوں نے اپنی تقریر جار ی رکھتے ہوئے کہا کہ جب ہم اردو اخبارات کی بات کرتے ہیں توصرف شمالی ہند اور وسطی ہند کے اخبارات پرروشنی ڈالتے ہیں ۔ آج بھی سابقہ ریاست حیدرآباد کے کئی شہروں حیدرآباد ‘اورنگ آباد ‘گلبرگہ ‘ناندیڑ ‘پربھنی ‘بیڑ وغیرہ سے کئی اردوروزنامہ اخبارات شائع ہورہے ہیں۔

آصف جاہی سلطنت میں اردو اخبارات نے جو خدمات انجام دی ہیں انھیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔محمدتقی نے کہاکہ اب ڈیجیٹل میڈیا کادور ہے ۔اس سے اخبارات کو کئی نئے مسائل و مشکلات درپیش ہیں۔چاہے وہ انگریزی ‘ ہندی ‘ اردو یا کسی بھی زبان کااخبار ہو ۔ اب پرنٹ میڈیا اپنی بقاءکی لڑائی لڑرہا ہے۔ کئی اخبارات بندہوچکے ہیں اور کئی بند ہونے کی دہلیز پرکھڑے ہیں ۔ا خبارات کے ا ی۔پیپر پڑھنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔اخبارات کی کھپت کم ہوتی جارہی ہے ۔ اردو کے نیوز پورٹل وجود میںآچکے ہیں ۔ آزادی سے قبل اردو اخبارات نے جنگ آزادی کی لڑائی میں اہم رول ادا کیا۔ملک کی آزادی کے بعد اردوصحافت کو ایک نئی لڑائی لڑنی پڑی۔وہ ملک کی جمہوریت‘سیکولرازم اور قومی یکجہتی کی بقاءو استحکام کےلئے لڑائی لڑ رہی ہے۔اردو صحافت کا ہمیشہ سیکولر کردار رہا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔انھوں نے اردو صحافت کے 200 سال مکمل ہونے پر صحافتی برادری کو مبارکباد دی ۔ پترکار ویکاس فاﺅنڈیشن ممبئی کے زیراہتمام ”اردوصحافت معاصرین کی نظرمیں“ عنوان سے عمدہ ایک روزہ قومی سمینار منعقد کرنے پر فاﺅنڈیشن کے صدر یوسف رانا اور سمینار کے روح رواں روزنامہ ہندوستان ممبئی کے مدیراعلیٰ سرفراز آرزو اور اُن کے رفقاءکو بھی مبارکباد پیش کی۔

روزنامہ ایشیا ایکسپریس کے مدیر شارق نقشبندی نے کہا کہ اردو کا ماضی تابناک اور حال کربناک ہے۔ اردو اخبارات کے پرنٹ ایڈیشن اپنے وجود کی جنگ لڑ رہے ہیں اب ضروری ہے کہ ہم پرنٹ ایڈشنوں کے ساتھ ساتھ ڈیجٹل ایڈیشن بھی شروع کریں۔اندو عرب سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر محمد علی پاٹنکر نے پرمغز تقریر میں کہا کہ جب ہمارے بچے اردو نہیں پڑھیںگے تو انہیں اپنی تہذیب و ثقافت سے آگاہی کیسے ہوگی؟”اردو صحافت کا ماضی حال اور مستقبل کے عنوان سے منعقدہ دوسرے سیشن کے صدر راجیہ سبھا رکن ندیم الحق (مدیر اخبار مشرق) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زبان اردو کے بقا کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماحول اور گھر میں اردو کو زندہ رکھیں انگریزوں سے قبل ہندستان میں فارسی رائج تھی مگر اس وقت بھی سنسکرت اور ہندی والے باہر تو فارسی استعمال کرتے تھے مگر انہوں نے اپنے گھروں میں اپنی زبان کو زندہ رکھا تھا سو ہمیں بھی یہ نسخہ کیمیا اپنانے کی ضرورت ہے۔کووڈ کے بعد اردو اخبارات کے حالات ناساز ہوگئے ہیں ان کی معاشی حالت سکڑتی جارہی ہے آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہوگئے ہیں ملک میں میں بہت سے افراد ہیں جو اردو سے محبت کا دعوٰ تو کرتے ہیں لیکن اس محبت کا اقرار نہیں کرتے ہم مغربی بنگال میں اردو کے فروغ کی کاوشوں میں مصروف ہیں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے تحت یہاں ضرورت مندوں کو اسکالر شپ فراہم کی جارہی ہے اردو گھر تعمیر کیا گیا ہے یہاں ہم گزشتہ دس سال سے غیر اردو دانوں کو زبان اردو سکھا رہے ہیں ویسے بھی اردو صحافت سے کلکتہ کا رشتہ پرانا ہے ۲۷،مارچ ۱۸۲۲ کو اردو کا سب سے پہلا اخبار جام جہاں نما کلکتہ سے ہی شائع ہوا تھا۔ مولانا آزاد نے بھی یہیں سے الہلال اور البلاغ شائع کیا تھا، آج صحافت پروفیشن سے تجارت کا رخ اختیار کر گئی ہے خود کو بچانے کے لئے کیا ہمیں بھی گودی میڈیا بننا پڑے گا!

جناب حسن کمال اور جناب شاہد لطیف نے اردو زبان اور صحافت کی بقا کے لئے جو ڈیجیٹل جرنلزم کی جو راہ تجویز کی ہے اسی سے اردو والوں کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے ہمیں ترقی وترویج کے لئے یہ راستہ اختیار کرنا ہی ہوگا۔اردو بلٹز،صحافت اور ہم آپ کے سابق ایڈیٹر حسن کمال نے اس موقع پر کہا کہ اردو صحافت کا ماضی نہایت شاندار،حال قدرے دھندلا اور مستقبل انتہائی تابناک ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ پرنٹ میڈیا اپنے وجود کے آخری دور میں ہے دو سال کے لاک ڈاو?ن نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی،لوگوں نے اخبارات خریدنا بند کردیا صرف وہی اخبارات اپنا وجود قائم رکھ سکے جو ویب سائٹ پر دستیاب تھے۔اردو اخبارات کے لئے بڑی مشکل یہی ہے کہ کوئی بہتر اور مکمل اخبار کی اشاعت کے لئے ماہانہ ۱۲،لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں اور اس مد میں اردو اخبارات کو معاشی مدد بھی دستیاب نہیں ہوتی آج اردو کے وہی اخبار پھل پھول رہےہیں جن کا اپنا کوئی دوسرا میڈیا یونٹ بھی ہو اس کے اشتراک سے گاڑی آگے بڑھ رہی ہے،لیکن ڈیجیٹل میڈیامیں اخراجات کا تخمینہ انتہائی کم ہوجاتا ہے لہذا اب ہمیں اس سمت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔مدیر انقلاب شاہد لطیف نے اپنے بصیرت افروز خطاب میں کہا کہ یہ فخر کا مقام ہے کہ اردو صحافت تیسری صدی میں داخل ہوچکی ہے۔یہ بڑا مقام ہے۔ان دو سو سال میں اردو کے ہزاروں اخبارات شائع ہوئے کسی اور زبان اتنی زرخیز تاریخ نہیں ملے گی اس تاریخی ورثہ کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آئندہ دو سو سال تک اسے زندہ رکھنے کے لئے جتن کرتے رہیں۔آج کی صحافت الیکٹرانک اور ڈیجیٹل ہوگئی ہے ویب اور موبائل جرنلزم عام ہوگیا ہے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اردو زندہ رہے گی تو اردو صحافت بھی زندہ رہے گی!اردو کا دائرہ محدود ہورہا ہے اسے وسیع کرنے کے لئے توجہ اور فکر کی ضرورت ہے،خود تلقین کرنے کے بجائے ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اردو کو برتنے کا چلن عام کریں۔اپنے گھر ،اداروں تنظیموں میں اپنی زبان کا استعمال کریں،۵۰?سال قبل عصمت چغتائی نے کہا تھاکہ مستقبل میں اردو غریب مسلمانوں کی زبان بن جائے گی اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے اسے امیر مسلمانوں تک کیسے پہنچایا جائے۔

آج انگریزی کے چلن کے سبب صرف اردو ہی بلکہ ملک دیگر زبانیں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔کوئی بات نہیں ماضی کی طرح ہمیں اپنی کوششوں اردو کو سب کی زبان بنانا ہوگا،ہمیں اردو کی بقا کے لئے جہاں سے کچھ حاصل ہوتا ہے اسی سمت اپنی توانائی صرف کرنا ہوگی،میں اردو کے مستقبل کے تعلق سے مایوس نہیں ہوں ،اب وقت آگیا ہے کہ ہم ریختہ کے طرز پر ایک پورٹل شروع کریں،ریختہ ادیبوں اور شاعروں کے لئے مختص ہے ہم صحافیوں کے لئے پورٹل قائم کریں۔اس سیمینار کے ناظم سرفراز آرزو نے بھی اردو صحافت کے مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ایک ٹن کاغذ۴۰،ہزار روپے میں دستیاب تھا اب اس کی قیمت ایک لاکھ روپے ہوگئی ہے ،اخبارات کی فروخت بھی کم ہوگئی ہے،جس سے اشاعت اثر انداز ہوئی ہے اب ہمیں آگے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئےہائبریٹ جرنلزم کی تگ و دو کرنا ہوگی انٹرنیٹ اورڈیجیٹل ایڈیشن شروع کرنا ہوگا۔سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زبان اردو ہم سے دور ہوتی جارہی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج غریب مسلمانوں نے اردو کو زندہ رکھا ہے گوونڈی اور شیواجی نگر کے میونسپل اردو اسکولوں میں طلباء کے لئے جگہ نہیں مگر ساو?تھ ممبئی میں اردو اسکولیں بند ہورہی ہیں۔جب تک اردو کو روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا اس وقت تک لوگ اردو سے وابستہ نہیں ہوں گے۔انہوں نے حسن کمال سے گزارش کی انہوں نے ڈیجیٹل اردو صحافت کا جو منصوبہ تیار کیا ہے اسے عمل میں لایا جائے اس مد میں ان سے جو بھی بن پڑے گا وہ قدم اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے بہتر لوگوں کو شامل کیا جائے آج دیکھا یہ جارہا ہے کہ میڈیا حکومت کا غلام بن گیا ہے۔یک روزہ سمینار میںپترکار وکاس فاونڈیشن کے سرپرست اعلی سینئر صحافی خلیل زاہد،ماہم درگاہ کےٹرسٹی سہیل کھنڈوانی، صحافت کے ایڈیٹرہارون افروز، اورنگ آباد ہندوستان کے مدیر نایاب انصاری، جاویدجمال الدین، شرافت خان، سلیم ناگانی، نظام الدین راعین، سابق کارپوریٹر آفرین شیخ، عمر لکڑاوالا،رضیہ امیر، شیریں دلوی، سعدیہ مرچنٹ، مشیر انصاری، ڈونگری پولس انسپکٹر رتنا کھانڈیوال، سابق کارپوریٹر وقار قادری، حلیم صدیقی، مختار قریشی سر، وسیم سنجر، فوٹو گرافر امتیازشیخ، عارف انصاری، شاہدہ دربار، عبدالقیوم نعیمی،عذرا خانم، رما شرما، نعیم شیخ، صابر خرادی، ارشادالحسن، ڈاکٹر علاو الدین، ساجددیوان، تواب انصاری، اورنگ آبادٹائمزکے ایڈیٹر شعیب خسرو، اوراردو صحافت سے وابستہ متعدد صحافی موجودتھے۔آخر میں صحافت ‘سیاست ‘سماجی شعبہ جات میںگرانقدر نمایاں خدمات انجام دینے پراُردوصحافیوں ‘سیاسی قائدین اور سماجی جہت کاروں کو ایوارڈ سے نوازاگیا۔