ملائیشیا میں موت اور عمر قید کی سزائیں برخاست

183

کوالالمپور: ملائیشیا میں قانون سازوں نے 3 اپریل کو ملک میں نافذ لازمی سزائے موت اور قدرتی عمر قید کی سزاؤں کو ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سے پہلے تک قتل اور منشیات کی ا سمگلنگ جیسے جرائم کے لیے موت کی سزائیں لازم تھیں، یعنی اس طرح کے کیسز میں ججوں کے پاس رعایت دینے یا متبادل سزا سنانے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

نئے قانون کے تحت اب موت کی جگہ ججوں کو 30 سے 40 برس قید کی سزا دینے یا کوڑے مارنے جیسی متبادل سزائیں دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔اس موضوع پر پارلیمانی بحث کے دوران نائب وزیر قانون رام کرپال سنگھ نے کہا کہ ”سزائے موت دینے سے بھی وہ نتائج نہیں برآمد ہوئے، جس کے لیے یہ سزا دی جاتی تھی۔

”ملک میں سزائے موت کا انتظار کرنے والے یا پھر فطری طور پر عمر قید کا سامنا کرنے والے 1300 سے بھی زائد افراد نئے قوانین کے تحت اپنی سزاؤں پر نظرثانی کی درخواست دے سکیں گے۔

سزا میں اصلاح کے لیے یہ ایک اہم قدم ہے تاہم ان اصلاحات سے ملک میں سزائے موت مکمل طور پر ختم نہیں ہو گی۔ انسدادِ سزائے موت کے لیے کام کرنے والے ایشیا نیٹ ورک کے ایگزیکٹو کوآرڈینیٹر ڈوبی چیو کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی ”آگے بڑھنے کی جانب ایک اچھا راستہ” ضرور ہے۔انہوں نے کہا، ”بیشتر حصے میں ہم ملائیشیا کے لیے صحیح راستے پر ہیں۔ یہ ایسی اصلاحات ہیں جن کے آنے میں کافی وقت لگ رہا ہے۔”

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے بھی اس اقدام کو ملائیشیا کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا: ”یہ ایک ایسی اہم پیش رفت ہے جو آسیان کے آئندہ اجلاسوں کے دوران کچھ سنجیدہ گفتگو کا سبب بنے گی۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”ملائیشیا کو آسیان کی دیگر حکومتوں کو سزائے موت کے مسلسل استعمال پر دوبارہ غور کرنے کی ترغیب دینے میں علاقائی سطح پر قیادت کرنی چاہیے، جس کی ابتدا سنگاپور سے ہونی چاہیے، جس نے کووڈ کی وبا کے بعد حال ہی میں پھانسی دینے کا عمل دوبارہ شروع کر دیا ہے۔