معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت دلائل کی روشنی میں

698

معراج کسے کہتے ہیں ؟:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمانی معجزات میں سے ایک معجزہ معراج ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا۔ معراج کا ہی دوسرا نام "اسراء” ہے۔ یہ نام اس لیے پڑا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سفر معراج کو بیان کرتے ہوۓ ” سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی”۔ میں لفظ ” اسرا” ارشاد فرمایا ۔ جب کہ معراج اس وجہ سے پڑا کہ آقاۓ کریم علیہ التحیۃ والتسلیم نے فرمایا "عرج بی الی السماء” کہ مجھے آسمان کی طرف چڑھایا گیا
( سیرت مصطفی 498/ مطبوعہ : حافظ ملت پبلیکیشنز)

معراج کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ :شرعی اعتبار سے معراج کی تین صورتیں ہیں۔ 1_ اسرا یہ مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کا سفر ہے۔ جسے قرآن کریم میں بیان کیا گیا۔ ارشاد ہوتاہے: "سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا انہ ھو السمیع البصیر۔” (س: بنی اسرائیل آیت:1)
ترجمہ : پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بے شک وہ سنتا دیکھتاہے (کنز الایمان )
یہ پہلی قسم قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہے اس کا ثبوت قرآن کریم سے ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔
دوسری قسم روے زمین سے آسمان دنیا تک کا سفر ہے ۔ اس کا ثبوت اخبار مشہورہ سے ہے اور اس کا منکر بدعتی اور گمراہ ہے۔
تیسری قسم آسمان دنیا سے جنت تک یا یاعرش اعظم تک یا اس کے علاوہ تک کا سفرہے اس کا منکر فاسق ہے ۔
شرح عقائد نسفی میں ہے:
” فالاسراء وھو من المسجد الحرام الی البیت المقدس قطعی ثبت بالکتاب والمعراج من الارض الی السماء مشھور ومن السماء الی الجنۃ او الی العرش او غیر ذالک أحاد۔”
(شرح عقائد نسفی ص: 143/ مطبوعہ مجلس برکات)
اسی کے تحت حاشیۂ شرح عقائد میں ہے :
"قولہ قطعی : لانہ ثبت بنص قطعی الثبوت مع کونہ قطعی الدلالۃ علیہ فمن انکرہ فہو کافر وقولہ مشہور فمن انکرہ فھو ضال۔”
( حاشیۂ شرح عقائد نسفی، ص: 143/ مطبوعہ مجلس برکات )
ایسا ہی "المعتقد المنتقد” میں ہے :
” ومنھا انہ اسری بہ صلی اللہ علیہ وسلم من المسجد الحرام الذی بمکۃ الی المسجد الاقصی الذی ھو بیت المقدس ، ثم عرج بہ الی حیث شاء اللہ من العلی وجزم فی شرح العقائد بان من انکر المعراج یحکم ببدعتہ وتفسیقہ قال اللاقانی وھو صواب فی خصوص المعراج واما الاسراء فحکم منکرہ الکفر وقال القاری : فمن انکر مطلق الاسراء فھو کافر بلا امتراء
( المعتقد المنتقد،الباب الثانی فی النبوات، 126/مطبوعہ : المجمع الاسلامی)
ایسا ہی "تفسیرات احمدیہ” میں ہے:
” مخفی نہ رہے کہ اس آیت کریمہ سے صرف معراج کا ابتدائی حصہ یعنی بیت المقدس تک جانا ثابت ہوتاہے اسی بنا پر تمام اہل سنت نے کہا کہ مسجد اقصی تک کا معراج قطعی اور ثابت بالکتاب ہے اور آسمان دنیا تک خبر مشہور سے ثابت اور اس سے اوپر آسمان کی طرف آحاد سے ثابت ہے اس لیے پہلے حصے کا منکر یقینا کافر ہے اور دوسرے کا منکر بدعتی گمراہ اور تیسرے کا منکر فاسق ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ .

متکلمین کی اس تقسیم پر کہ بیت المقدس سے آسمان دنیا تک کا سفر احادیث مشہورہ اور آسمان دنیا سے جنت یا عرش یا جہاں تک رب نے چاہا کا سفر اخبار آحاد سے ثابت ہے اس لیے معراج کے اس حصہ سفر کا منکر گمراہ اور فاسق ہوگا کافر نہ گا ” یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ بیت المقدس سے آگے کے سفر کی تفصیلات سورہ النجم سے بھی معلوم ہوتی ہیں اور اس سورت کی ابتدائی آیات میں واقعہ معراج کا ذکر ہے تو بقیہ واقعہ معراج کا منکر بھی کافر ہونا چاہیے کہ نص قرآنی کا انکار کفر ہے؟ تو اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ مسجد حرام سے بیت المقدس تک کے سفر کا ثبوت نص صریح سے ثابت ہے یعنی وہ قطع الثبوت بھی ہے اور قطعی الدلالۃ بھی جیسا کہ حاشیہ شرح عقائد کے حوالے سے گزرا لیکن بیت المقدس سے آگے تک کا سفر سورۂ النجم کی جن آیات سے ہے وہ سب محتمل ہیں اور محتمل کا انکار کفر نہیں ہوتا۔
"تفسیرات احمدیہ” میں ہے: اگر لوگوں کا خیال ہے کہ معراج آسمان کی طرف قرآن سےاصلا ثابت نہیں تو یہ باطل ہے اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ آیت کریمہ معراج کے اس حصہ کے ثبوت کے لیے محکم اور قطعی الدلالۃ جو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک ہوا۔ بخلاف سورۂ النجم کے کہ یہ محتمل ہے اور قطعی الدلالہ بھی نہیں ۔ پس باوجود اس کے اس پر ان لوگوں کا کلام دلالت نہیں کرتا۔ ان کا کلام غیر ظاہر ہے کیوں کے بظاہر سورۂ النجم کی آیات بھی ثبوت معراج میں قطعی الدلالۃ ہیں اگرچہ وہ اپنے معانی کے لحاظ سے دو معانی کا احتمال رکھتی ہیں مگر یہ ہوسکتاہے کہ شق ثانی کے اعتبار سے یعنی اسے اختیار کرکے یہ جواب دیا جاۓ کیوں کہ اس میں احتمال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتھی میں رب ذو الجلال کو دیکھا یا جبرئیل امین علیہ السلام کو دیکھا جب کہ آپ زمین پر اپنے گھر مقیم و مستقر تھے ۔بخلاف پہلی آیت کے کیوں کہ اس میں "اسراء” کو ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ اس میں آپ کے جسم اقدس سمیت جانے پر کوئی دلالت نہیں ۔ بخلاف پہلی آیت کے کیوں کہ اس میں لفظ ” عبد” ذکر کیا گیا ہے جو روح اور جسم دونوں کو شامل ہے اور یہ بھی کہ یہ آیت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ آسمانوں سے اوپر کا معراج رات کے وقت ہوا یا مسجد حرام سے اس کی ابتدا ہوئی۔( تفسیرات احمدیہ ص: 684/ مطبوعہ ادبی دنیا مٹیا محل دہلی)

"السراج الوھاج فی الاسراء والمعراج” میں ہے :
وحیث ان القرآن العظیم قد نص علی الاسراء یقظۃ نصا صریحا فانکارہ کفر وعناد ونص علی المعراج بالتأویل (التفسیر) فانکارہ فسق وضلال۔”
(السراج الوھاج فی الاسراء والمعراج ص:44/
معراج کب ہوئی؟
معراج کے بارے میں علما کا اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ربیع الاول شریف کے مہینے میں ہوئی۔ دوسرا یہ کہ ربیع الآخر میں تیسرا یہ کہ رمضان المبارک میں چوتھا شوال المکرم میں لیکن اصح یہ ہے کہ ماہ رجب المرجب کی ستائیسویں شب میں نبوت کے بارہویں سال ہجرت سے ایک سال قبل ہوئی۔
(ملخصا از : تفسیرات احمدیہ ص: 684)

معراج حالت بیداری میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوئی
اس بارے میں اختلاف ہے کہ معراج حالت بیداری میں ہوئی یا نیند میں؟ یوں ہی جسم کے ساتھ ہوئی صرف روح کے ساتھ ؟ اصح یہ ہے کہ حالت بیداری میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوئی۔لہذا جو صرف روح کے لیے مانتاہے یا صرف خواب میں تسلیم کرتاہے وہ مبتدع ضال اور مضل وفاسق ہے۔
( تفسیرات احمدیہ ص: 684)
ایسا ہی شرح عقائد نسفی میں ہے :
"والمعراج لرسول اللہ علیہ السلام فی الیقظۃ بشخصہ الی السماء ثم الی ماشاء اللہ تعالی من العلی حق ای ثابت بالخبر المشہور حتی ان منکرہ یکون مبتدعا۔
(شرح عقائد نسفی ص: 142/مطبوعہ مجلس برکات)
شرح شفا لملا علی قاری میں ہے:
وذھب معظم السلف والمسلمین ای من الخلق الی انہ اسراء بالجسد ای مع الروح لابالروح دون الجسد وفی الیقظۃ بفتح القاف ولایجوز تسکینھا وھی ضد المنام وھذا ھو الحق ای ثابت عند اھلہ۔
شرح شفا لملا علی قاری ص: 404 /مطبع : دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

معراج سے متعلق اعتراضات کا علمی محاسبہ
1_ معراج کے متعلق یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ معراج کے لیے آسمان کا خرق والتیام کو قبول کرنا ضروری ہے جب کہ آسمان کا خرق و التیام یعنی شگاف کو قبول کرنا ممکن نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک فلسفی اصول ہے۔ورنہ آسمان کا خرق والتیام کو قبول کرنا ممکن ہے اور اس پر بے شمار نصوص ناطق وشاہد ہیں ۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ اذا السماء انشقت اور اذا السماء انفطرت اور یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب وغیرہ ۔
جیساکہ شرح عقائد نسفی میں ہے:
وانکارہ وادعاء استحالتہ انما یبتنی علی اصول الفلاسفۃ والا فالخرق والالتیام علی السماوات جائز۔
(شرح عقائد نسفی ص: 143/مطںوعہ مجلس برکات)
2_ ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتاہے کہ حدیث شریف میں ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے معراج کے بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ نیک خواب تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو معراج جسمانی نہیں ہوئی بلکہ معراج منامی ہوئی تھی
اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ حدیث امیر معاویہ میں "رؤیا صالحۃ ” کا ذکر ہے اور رویا کا معنی خواب بھی آتاہے جیسا کہ معترض نے سمجھا لیکن یہاں یہ معنی مراد نہیں بلکہ رویا سے رویت عینی مراد ہے یعنی آنکھوں سے دیکھنا اور یہ معراج جسمانی میں ہی ہوسکتاہے۔
جیساکہ "شرح عقائد نسفی” میں ہے: فقولہ فی الیقظۃ اشارۃ الی الرد علی من زعم ان المعراج کان فی المنام علی ما روی عن معاویۃ رضی اللہ تعالی عنہ انہ سئل عن المعراج فقال کان رویا صالحۃ واجیب بان المراد الرویا بالعین
( بتغییر یسیر شرح عقائد نسفی ص: 143/مطبوعہ مجلس برکات)
3_ کبھی کبھی یہ سوال بھی کیا جاتاہے کہ معراج جسمانی کو کیسے تسلیکم کرلیا جاۓ جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اس کا انکار کرتی ہیں اور فرماتی ہیں: کہ معراج کی رات حضور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مفقود نہیں ہوا بلکہ بستر پر ہی رہا۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ معراج کی رات آپ کا جسد اطہر روح سے مفقود اور الگ نہیں ہوا یعنی روح اور جسم کے ساتھ معراج کے لیے گئی تھے لہذا ام المؤمنین عائشہ صدیقہ نے معراج کا انکار نہیں کیا بلکہ معراج کو ثابت کیا ہے۔
اس بابت "شرح عقائد نسفی” میں ہے:
” روی عن عائشۃ رضی اللہ تعالی عنہا انھا قالت مافقد جسد محمد علیہ السلام لیلۃ المعراج والمعنی مافقد جسدہ عن الروح بل کان مع روحہ وکان المعراج للروح والجسد جمیعا
(شرح عقائد نسفی ص: 143/ مطبوعہ مجلس برکات )
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ فرمانا "کہ معراج کی رات حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا جسم گم نہ ہوا تھا” مشاہدے کی بنیاد پر نہیں ہے کیوں کہ اس وقت آپ نہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شریکۂ حیات تھیں اور نہ اس عمر کی تھیں کہ معاملات کو یاد رکھ سکیں۔ بلکہ زمانۂ معراج میں اختلاف کے باعث امام شہاب زہری اور ان کے متبعین کے قول کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ولادت ہی نہ ہوئی تھی۔ اس لیے کہ معراج اعلان نبوت کے ڈیڑھ سال بعد مکہ مکرمہ میں ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا آٹھ سال کی تھیں جب کہ یہ بھی مسلم ہے کہ آپ اعلان نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں تیرہ برس رہے ۔ تو اس حساب سے جس وقت معراج ہوئی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ولادت بھی نہ ہوئی تھی بلکہ واقعہ معراج کے ساڑھے تین سال بعد تولد ہوئیں۔
جیساکہ شرح شفا لملا علی قاری میں ہے:
"واما قول عائشۃ رضی اللہ عنہا مافقد جسدہ فعائشۃ لم تحدث بہ عن مشاھدۃ لانھا لم تکن حینئذ ای حین اذا وقع الاسراء زوجہ ولا فی سن من یضبط ای بل ولاکانت حینئذ فی سن من یحفظ الامور ولعلھا لم تکن ولدت بعد ای تلک الساعۃ علی الخلاف فی الاسراء ای بناء علی الاختلاف الواقع فی زمن الاسراء متی کان فان الاسراء کان فی اول الاسلام علی قول الزہری ومن وافقہ بعد المبعث بعام ونصف وکانت عائشۃ فی الھجرۃ ای زمنھا بنت نحو ثمانیۃ اعوام فکان الاسراء علی ھذا قبل ولادتھا بنحو ثلاثۃ اعوام ونصف اذ قد مکث بمکۃ بعد البعثۃ ثلاثۃ عاما
(شرح شفا لملاعلی قاری ص: 414)
لہذا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث کو دوسری روایات پر ترجیح نہیں دی جاۓ گی اس لیے کہ آپ نے یہ حدیث براہ راست حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی بلکہ کسی اور راوی سے سنی ہے لیکن اسے حذف کردیا گیا تو یہ روایت مجہول السند ہوئی بلکہ یہ حدیث ثابت ہی نہیں مانی جاۓ گی اس لیے کہ دوسرے راویان حدیث اس کے خلاف بیان کررہے ہیں۔ نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ایک راوی ابن اسحاق ہیں جن کے بارے میں امام مالک وغیرہ نے کلام کیا ہے۔ بلکہ اس حدیث کی عدم صحت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ واقعہ معراج بالاجماع مکہ میں وقوع پذیر ہوا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں رہیں تھیں۔

ایسا ہی شرح شفا لملا علی قاری میں ہے:
"فلم یرجح خبرھا علی خبر غیرھا ای لروایتھا لہ عن مجھول بل لعدم ثبوتہ وغیرھا یقول خلافہ فلیس حدیث عائشۃ رضی اللہ عنھا ای مافقدت جسدہ بالثابت ای عند أئمۃ الحدیث لقادح فی سندہ عنھا اذ فیہ ابن اسحاق وقد تکلم فیہ مالک وغیرہ والاحادیث الآخر اثبت وایضا فقد روی فی حدیث عائشۃ مافقدت ای جسدہ ولم یدخل بھا الا بالمدینۃ جملۃ حالیۃ مؤذنۃ بعدم صحۃ حدیث مافقدت عنھا اذ الاسراء اذ الاسراء کان بمکۃ اجماعا۔( شرح شفا لملاعلی قاری ص: 415)
4_ اعتراض کیا جاتاہے۔ کہ یہ بات عقل میں نہیں آتی کہ انسان کا ثقیل جسم اتنی جلدی تمام عالم کی سیر کرلے۔ جب کہ معراج کے وقت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ پلک جھپکنے کے برابر وقت لگا تھا اور آپ نے تمام آسمانوں ، جنت و دوزخ، عرش اعظم ،سدرۃ المنتھی وغیرہ، پھر لامکاں کی سیر کی ۔ یہ سب غیر متناہی ہیں اور وقت متناہی لگا وہ بھی ایسا کہ پلک جھپکنے کے برابر۔
اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ یہ چیز تو اس وقت دشوار ہے جب معراج کے لیے پیادہ یا دنیوی سواری پر سوار ہوکر تشریف لے گئے ہوں لیکن ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے تمام مسافت کو لپیٹ دیا ہو۔ جیسے : زمین وآسمان کا لپیٹنا جب کہ یہ بھی مسلم ہے کہ آپ نے معراج میں جو سواری استعمال کی وہ جنت کی سواری براق تھا۔جس کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ اس کا پہلا قدم اس جگہ پڑتا جہاں تک نظر کام کرتی تھی لہذا مسافت بعیدہ کا لمحہ بھر میں طے کرلینا کوئی مشکل امر نہیں۔
جیسا کہ "السراج الوھاج ” میں ہے:
"منھا، قالوا ان الجسم الثقیل لایعقل ان یقطع ھذہ المسافۃ بالسرعۃ المتناھیۃ الی ھذ الحد۔
فھم لایدرون ان الاسراء لم یکن مشیا علی الاقدام علی ان ذالک فی الامکان کطی الزمان والمکان ولم یکن علی دابۃ من دواب الدنا۔
(السراج الوھاج فی الاسراء والمعراج،ص:37)
5_ یہ بھی سوال کیا جاتاہے کہ اجسام بشری کثیف و دبیز ہیں اور زمین جاذب اور پرکشش یعنی اپنی طرف کھینچنے والی ہے۔ تو بغیر آلہ کے معراج کیوں کر ممکن ہوسکتی ہے؟ نیز آسمان و زمین کے درمیان ایسے طبقات ہیں جو زندگی کے مناسب نہیں۔ جیسے : "طبقۂ زمہریریہ” اور "طبقۂ نار”اب اگر کوئی آسمان پر صعود کرے گا تو گرجاے گا یا جل جاے گا اور مردہ ہوکر زمین پر پڑا ہوگا۔
اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ انبیاے کرام کی دو حالتیں ہیں ایک بشری اور دوسری نوری، وہ جب خلق خدا سے ملتے ہیں تو بشری لباس میں ہوتے ہیں ۔اور جب خالق سے ملتے ہیں تو نوری لباس میں ہوتے لہذا نوری لباس میں ہوتے ہوۓ کسی آلہ کی حاجت نہیں جیسے فرشتوں کو حاجت نہیں کہ ان طبقات کے باوجود وہ آتے جاتے ہیں اور آسمان وزمین کےمابین طبقہ نار وبرد کا ہونا بھی اس میں مخل نہیں۔ ورنہ تو کوئی بھی انسان اوپر نہ چڑھ سکتا تھا۔ جب کہ بعض حضرات کے لیے اوپر جانا ثابت ہے ۔ جیسے: سیدنا ادریس علیہ السلام، جنھیں حامل عرش فرشتے کے بازو پر چوتھے آسمان پر اٹھالیا گیا۔ ارشاد ربانی ہے : "اور ہم نے انھیں بلند جگہ پر اٹھالیا” اور جیسے : حضرت عیسی علیہ السلام کہ انھیں دوسرے آسمان پر اس فرشتے کے بازو کے ذریعے اٹھایا گیا جو اس پر مؤکل تھا۔ ارشاد باری ہے: "اور انھوں نے اسے شہید نہ کیا بلکہ اللہ نے یقینا اسے اپنی طرف اٹھالیا۔”
علاوہ ازیں یہ کہ اللہ تعالی اس پر قادر ہے کہ بھاری بھرکم جسم کو پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں جہاں چاہے چلاۓ یا اٹھاۓ۔ مثلا ملکۂ یمن حضرت بلقیس کا تخت بہت بھاری تھا:٠ جس کی لمبائی 80/گز ، عرض 40/گز اور اونچائی 30/گز تھی۔ سونے چاندی کا بناہوا تھا،موتی یاقت اور زبرجد اس میں جڑے ہوۓ تھے۔ اور یہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ایک کاتب ولی کامل حضرت آصف بن برخیا کی دعا پر اقصاے یمن یعنی سبا سے اقصاے شام یعنی آپ کی خدمت اقدس میں پلک جھپکنے سے پہلے سامنے حاضر تھا یہ حضرت آصف بن برخیا وہ ہیں جنھیں اسم اعظم یاد تھا۔ اسے پڑھ کر دعا کی تو اللہ تعالی نے اس کی برکت سے پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس حاضر کردیا۔ اللہ تعالی کے ارشاد :” وہ بولا جس کے پاس کتاب کا علم یعنی اسم اعظم تھا میں تمھارے پاس اسے آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے لادوں گا ۔” یہی مراد ہے ۔ اور ایسے ہی کرامات اولیا ہوتی ہیں۔
تو سید الانبیاء افضل المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج میں تمام آسمانوں کی سیر کرنا اور مسافت بعیدہ وکثیرہ کا پلک جھپکنے سے پہلے طے کرلینا تخت بلقیس سے آسان تر ہے۔
"السراج الوھاج” میں ہے:
” منھا انھم قالوا ان الاجسام الکثیفۃ لایعقل ان ترتفع الی السماء بدون آلۃ فان الارض جاذبۃ لھا۔ وایضا فان مابین السماء والارض طباقا لاتلائم الحیاۃ فلو وصل الیھا ای انسان لاختنق او احترق وسقط میتا
فھم لایعقلون ان الانبیاء وان کانت اجسامھم بشریۃ الا ان اللہ تعالی یلطفہا بترقیق حجب بشریتھم حتی تصیر اجسامھم نورانیۃ ملکیۃ فیواجھون الخلق بالاجسام البشریۃ ویواجھون الخالق بالاجسام النورانیۃفھم کالملئکۃ لاتمنعھم ھذہ الطباق من الصعود والا مارفع بعضھم حیا ولا یزال للآن حیا کسیدنا ادریس علیہ السلام الذی رفع الی السماء الرابعۃ علی جناح الملک المؤکل یحمل العرش {ورفعناہ مکانا علیا} وسیدنا عیسی علیہ السلام الذی رفع الی السماء علی جناح الملک المؤکل بھا {وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ}
اور اس کے کچھ بعد یوں ہے:
علی ان اللہ تعالی لیس بعزیز علیہ ان یسیر الجسم الثقیل او یرفعہ الی حیث شاء فی اقل من لمح البصر
فعرش بلقیس ملکۃ الیمن ( ای سریر ملکہا) عرش طویل ثقیل طولہ 80 ذراعا وعرضہ 40 ذراعا وارتفاعہ 30 ذراعا مضروب من الذھب والفضۃ ومکلل من الدر والیاقوت والزبرجد۔ قد نقل الی سیدنا سلیمان علیہ السلام من اقص الیمن (سبا) الی اقصی الشام واستقر بین یدیہ قبل طرفۃ عین اجابۃ لدعوۃ کاتبہ وھو رجل صالح تقی ۔ألا وھو آصف بن برخیا وکان یحفظ اسم اللہ الاعظم الذی دعا اللہ تعالی بہ ان ینقلہ الیہ فأجاب اللہ دعوتہ وقد ظہرت ھذہ المعجزۃ علی یدیہ بحسب ارادتہ ورغبتہ وھکذا کرامۃ الاولیاء وھو المراد فی قولہ تعالی( قال الذی عندہ علم الکتاب)ای الاسم الاعظم (انا آتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک)
فالاسراء بسید الانبیاء وصفوۃ المرسلین وقطعہ تلک المسافۃ ذھابا وایابا فی اقرب من لمح البصر لاھون علی اللہ تعالی من نقل عرش بلقیس۔”
( السراج الوھاج فی الاسراء والمعراج ،ص: 39)
معراج کی رات سدرۃ المنتھی پر حضور غوث اعظم کا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے براق پر سوار ہونے کے لیے کاندھا پیش کرنا: تحقیق
واقعہ معراج میں اکثر خطبا و مقررین یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں براق پش کیا گیا۔ براق نے شوخی کی، حضرت جبرئیل امین نے فرمایا: اے براق شوخی کیوں کرتاہے؟ کیا تجھے معلوم نہیں تجھ پر امام الانبیا جلوہ گر ہونے والے ہیں؟ براق نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: حضور! میری ایک خواہش ہے کہ جب آپ میدان محشر میں جنت کے لیے تشریف لے جارہے ہوں گے تو آپ کی خدمت اقدس میں بہترین براق پیش ہوں گے لیکن میں چاہتاہوں کہ آپ اس دن مجھے فراموش نہ فرمائیں ۔آقاے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخواست منظور فرمائی۔ براق نے عرض کی یارسول اللہ! میرے گردن پر دست اقدس رکھ دیں تاکہ علامت ہوجاۓ کہ بروز قیامت آپ میرے اوپر ہی سوار ہوں گے۔ آپ نے ہاتھ بھی رکھ دیا۔ اس پر براق چالیس ہاتھ اچھلا اور بلند ہوا۔ اسی لحظہ قطب ربانی امام الاولیا سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کی روح پر نور حاضر ہوئی آپ حضرت غوثیت کے کاندھے پر قدم رکھ کر براق پر سوار ہوۓ۔ اور فرمایا: آج میرا قدم تمھاری گردن پر ہے ۔ کل تمارا قدم تمام اولیا کی گردن پر ہوگا۔ اس روایت کے متعلق خوب واویلہ مچایا جاتاہے کہ یہ موضوع ہے۔ ثابت نہیں ہے۔ اعلی حضرت نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے ۔
محترم قارئین ! پہلے اعلی حضرت کا فتوی نقل کیا جاتاہے آپ اس کا بنظر عمیق مطالعہ کریں اور انصاف کی نگاہ سے فیصلہ کریں کہ اعلی حضرت نے اسے کیا کہا ۔ پھر فتوی پیش کرنے کے بعد ہم اس کا کچھ تجزیہ کریں گے ۔
فتاوی رضویہ میں ہے:
” مسئلہ : 112 کیا فرماتے ہیں علماے حق الیقین اور مفتیان پابند شرع متین اس مسئلے میں کہ صاحب "تحفہ قادریہ” لکھتے ہیں کہ براق خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اتنا بڑا اور اونچا ہوگیا کہ صاحب معراج کا ہاتھ زین تک اور پاؤں رکاب تک نہ پہنچا۔ ارباب معرفت کے نزدیک اس معاملے میں عمدہ تر حکمت یہ ہے کہ جس طرح آج کی رات محبوب اپنا دولت وصال سے فرح( خوش حال)ہوتا ہے اسی طرح محبوب کا محبوب بھی نعمت قرب خاص اور دولت اختصاص اور ولایت مطلق اور غوثیت برحق اور قطبیت اصطفا سے اور محبوبیت مجد و علی سے آج مالا مال ہی کردیا جاۓ۔
چناں چہ صاحب "منازل اثنا عشریہ” ” تحفۂ قادریہ” سے لکھتاہے کہ اس وقت سیدی ومولائی، مرشدی وملجائی، قطب الاکرم، غوث الاعظم ،غیاث الدارین وغوث الثقلین، قرۃ العین مصطفوی و نوردیدۂ مرتضوی، حسنی وحسینی، سرو حدیقۂ مدنی، نور الحقیقت والیقین ،حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کہ روح پاک نے حاضر ہوکر گردن نیاز صاحب لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے نیچے رکھ دی اور اس طرح عرض کیا۔
برسر و دیدہ ام بنہ اے مہ نازنین قد
بود بسرنوشت من فیضی قدم ازیں قدم
(اے نازنین میرے سر اور آنکھوں پر قدم رکھیے تاکہ اس کی برکت سے میری تقدیر پر فیضان قدم ہو)
خواجۂ عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم گردن غوث الاعظم پر قدم رکھ کر براق پر سوار ہوۓ اور اس روح پاک سے استفسار فرمایا کہ تو کون ہے؟ عرض کیا: میں آپ کے فرزندان ذریات طیبات سے ہوں۔ اگر آج نعمت سے کچھ منزل بخشیے گا تو آپ کے دین کو زندہ کروں گا ۔ فرمایا: تو محی الدین ہے اور جس طرح میرا قدم تیری گردن پر ہے۔ کل تیرا قدم کل اولیا کی گردن پر ہوگا۔
پس ان دونوں عبارت کتب سے کون سی عبارت متحقق ہے؟ کس پر عمل کیا جاۓ ؟یا دونوں ازروے تحقیق کے درست ہیں؟ بیان فرمائیے۔
از اوجین ریاست گوالیار مرسلہ محمد یعقوب علی خاں صاحب 17/ ربیع الآخرہ 1310ھ
واضح رہے کہ یہاں اعلی حضرت سے دو سوال ہوۓ لیکن ہم نے طوالت کے خوف سے اور مطلوب کی مناسبت سے ایک سوال نقل کیا اب اس کا جواب کا محصل ملاحظہ ہو۔
الجواب
روح مقدس کا شب معراج کو حاضر ہونا اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت غوثیت کی گردن مبارک پر قدم اکرم رکھ کر براق یا عرش پر جلوہ فرمانا اور سرکار ابد قرار سے اس فرزند ارجمند کو اس خدمت کے صلہ میں یہ انعام عظیم عطا ہونا۔ ان میں کوئی امر نہ عقلا اور شرعا مہجور اور کلمات مشائخ میں مسطور و ماثور کتب حدیث میں ذکر معدوم ، نہ کہ عدم مذکور، نہ روایات مشائخ اس طریقہ سند ظاہری میں محصور اور قدرت قادر وسیع وموفور اور قدر قادری کی بلندی مشہور پھر رد وانکار کیا مقتضاے ادب وشعور!
(فتاوی رضویہ ج: 28، ص: 412/ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ رضویہ نظامیہ لاہور )
قارئین کرام! اب ذرا کچھ گہرائی میں اترکر اعلی حضرت کے جواب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ کے جواب کا مطلب یہ ہے : کہ اس واقعے میں نہ کوئی شرعی خرابی ہے اور نہ عقلی۔ اور یہ روایت اولیا ومشائخ کرام کے ارشادات وفرمودات اور ان کے کلمات میں ملتی ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ حدیث کی کتاب میں اس روایت کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس واقعہ کے عدم پر کوئی حدیث موجود ہو یعنی کوئی حدیث یہ بتارہی ہو کہ یہ وقعہ صحیح نہیں ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ جو حدیث عن فلاں بں فلاں سے روایت ہو اسی کو روایت مانا جاۓ گا۔ تو اس ظاہری طریقۂ سند میں بھی روایات مشائخ منحصر و مقید نہیں ہیں ۔ بلکل اس کے علاوہ اور بھی طریقے ہیں جن سے روایات کا ثبوت ہوتاہے۔ پھر غوث اعظم کا مرتبہ اس پایہ بلند ومشہور ہے تو رد اور انکار کی کیا مجال وگنجائش ہے!
اب اعلی حضرت کا وہ فتوی ملاحظہ کریں جس سے اس واقعہ کے موضوع ہونے کا شبہ ہوا
فرماتے ہیں:
کتب احادیث وسیر میں اس روایت کا نشان نہیں۔رسالہ غلام امام شہید محض نامعتبر بلکہ صریح موضوعات واباطیل پر مشتمل ہے۔ منازل اثنا عشریہ کوئی کتاب فقیر کی نظر سے نہ گزری۔ نہ کہیں اس کا تذکرہ دیکھا ۔ "تحفہ قادریہ شریف” اعلی درجے کی مستند کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ بالاستعاب سے بارہا مشرف ہوا جو نسخہ میرے پاس ہے یا اور جو میرے پاس سے گزرا ان میں یہ روایات اصلا نہیں۔
(فتاوی رضویہ ج: 28،ص: 428 ، 429/ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ رضویہ نظامیہ لاہور)
اس فتوے سے لوگوں کو مغالطہ ہوا کہ یہ روایت موضوع اور بےاصل ہے۔ جب کہ اعلی حضرت نے اس میں کہیں بھی روایت کو موضوع نہیں کہا بلکہ آپ نے یہ فرمایا:
کہ حدیث اور سیرت کی جتنی کتابیں ہیں ان میں یہ روایت کہیں موجود نہیں۔
دوسرے یہ کہ اس روایت کا جس کتاب میں ہونے کا حوالہ دیا گیا ہے وہ کتاب یعنی رسالہ امام غلام شہید غیر معتبر ہے۔
اور اس میں جو واقعات وقصص بیان کیے گئے ہیں وہ زیادہ تر باطل اورموضوع ہیں۔
تیسرے یہ کہ "منازل اثنا عشریہ” میں اس روایت کے ہونے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جب کہ اس نام کی کوئی کتاب نہیں، نہ کہیں نظر سے گزری، یوں ہی یہ روایت نہ” تحفۂ قادریہ“ میں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ روایت پھر ہے کہاں؟
تو اس کا جواب یہ ہے۔کہ یہ روایت ” تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر” میں "حرز العاشقین ” کے حوالے سے مندرج ہے۔
"فتاوی رضویہ ” میں ہے:
” فاضل عبد القادر قادری ابن شیخ محی الدین اربلی کتاب نے ” تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر” رضی اللہ تعالی عنہ میں یہ روایت لکھی ہے۔اور اسے جامع شریعت وحقیقت شیخ رشید بن محمد جنیدی رحمہ اللہ کی کتاب ” حرز العاشقین ” سے نقل کیاہے۔ اور ایسے امور میں اتنی ہی سند بس ہے۔
(فتاوی رضویہ ج: 2 ، ص: 429/ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن مدرسہ رضویہ نظامیہ لاہور)
کتبہ : محمد ایوب مصباحی
پرنسپل وناظم تعلیمات دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج و خطیب وامام مکہ مسجد عالم پور ورکن مجلس شوری سہ ماہی عرفان رضا ٹھاکردوارہ
مراداباد یو۔پی۔ رابطہ: 8279422079