مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا مسئلہ۔ کتنی حقیقت کتنا فسانہ بقلم : شبیع الزماں

1,397

مسلم لڑکیوں کا ارتداد ایک جذباتی مسئلہ ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ مسئلہ بار بار زیر گفتگو آ رہا ہے اور مسلمانوں میں بے چینی پیدا کررہا ہے۔
ہندوستان کے مخلوط معاشرے میں اس طرح کی شادیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اس بار یہ تاثر ابھرا کہ اس طرح کی شادیاں سنگھ پریوار سازش کے تحت کروا رہا ہے۔ بلا شبہ اس میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرورہے۔

ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے اس طرح کی کوششیں دکھائی دیتی ہیں۔ جیسے ہندو جاگرن منچ کی طرف سے بیٹی بچاؤ بہو لاؤ مہم یا reverse love jihad مہمیں لانچ کرتا رہتا ہے۔

ہندوتوادی مقررین بھی اپنی تقریروں میں اس مسئلے کو اچھالتے رہتے ہیں اور ہندو نوجوانوں کو اس کے لیے اکساتے رہتے ہیں۔

مسلمانوں کا اس مسئلہ میں بے چین ہونا فطری امر ہے لیکن اس معاملے میں دو چیزیں تشویشناک ہیں :

اول۔ جو ڈاٹا مسلمانوں کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے اس کی credibility مشکوک ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ڈاٹا دیا جارہا ہے جبکہ اس کا کوئی authentic source نہیں ہے۔ اس ڈاٹا سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لڑکیاں ہندوادیوں کے لیے بالکل نرم چارہ ہیں ، ادھر انھوں نے مہم شروع کی اور ادھر دھڑا دھڑا مسلم لڑکیاں ارتداد کا شکار ہوگئیں۔

دوم۔ مشکوک ڈاٹا کی بنیاد پر مقررین اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حد سے زیادہ خوف اور سراسیمگی کی کیفیت مسلمانوں میں پیدا کررہے ہیں۔ اور ایک چھوٹے ایشو کو بہت بڑے مسئلے کے طور پیش کیا جارہا ہے۔

بعض لوگ تقریروں میں جوش پیدا کرنے اور مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے بھی exaggarate کررہے ہیں۔
لیکن واضح رہے کہ مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے حقیقی مسائل کی کمی نہیں ہے ، اس کے لیے اس طرح کے fake narratives بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو مسئلہ جتنا ہے اسے اسی قدر اہمیت دینے کی ضرورت ہے ورنہ زیادہ توجہ طلب مسائل دھرے رہ جائیں گے۔ لیکن سازشی تھیوریز کا کلچر ہمارے معاشرے میں اتنا عام ہوگیا اب ان کا تنقیدی جائزہ لینے اور انکی حقیقت تک پہنچنے کا مزاج ہی ختم ہوگیا ہے۔ لوگ اب ان تھیوریز کو لےکر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور خوف کی نفسیات پھیلاتے رہتے ہیں۔

جو ایک تھا اے نگاہ تُو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا