مسلمان غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ تعلقات بہتر رکھیں اور اُنھیں مساجد کا مشاہدہ کروائیں:حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

ناندیڑ۔4ستمبر (راست) موجودہ دور میں مسلمانوں کو چاہے کہ وہ دو چیزوں کو اپنائیں ایک اپنی اگلی نسلوںکے ایمان کو بچانے کیلئے مکتب اور اسکولوں کے نظام کو شروع کروائیں ۔ دوسرا کام مسلمانوں کو چاہے کہ وہ اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے اپنے شہر کی مساجدوں کودکھانے کا کام کریں۔ یعنی مساجدوں کا تعارفی پروگرام منعقد کرکے غیر مسلم بھائیوں کو اپنے مساجد میں لاکر انھیں دکھائیں۔ انھیں یہ بھی بتائیں کہ مسجدوں میں نہ کوئی ہتھیار ہوتا ہے اور نہ ہی تلوار اور نہ ہی بندوق ہوتی ہے۔

اسی طرحمسجد کے تمام حصوں کا مشاہدہ کراتے ہوئے امام اور موذن کا کمرہ بھی ضرور دکھائیں ۔ اسی طرح مسجد میں رکھی ہوئی کتابیں یعنی قرآن مجید بھی ان کے سامنے پیش کریں۔ان غیر مسلم بھائیوں کی مسجد میں زیافت کرنے کیلئے مسجد کمیٹی و دیگر ذمہ داران کو چاہے کہ وہ ان پر خرچ کریں ۔ اسی وقفہ کے دوران ان کے سامنے رسول ﷺ کی زندگی کے تعلیمات اور اسلام کے بارے میں بھی تعارف پیش کریں ۔ تب ہی جاکر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کو غیر مسلم بھائیوں کے ذہن سے دور کیا جاسکے گا۔ان زرین خیالات کا اظہار عالم اسلام کی معروف و صائب الرائے شخصیت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم (جنرل سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرنسل لا ، بورڈ )نے اپنے ناندیڑ دورے کے موقع پر شہر کے مسجد خواجگان ، نظام کالونی ، ناندیڑ میں عمومی اجلاس بعنوان ’’تحفظ شریعت ‘‘پر خطاب فرما تھے۔

اس اجلاس سے قبل شہر میں مسجد یونس ریلوے اسٹیشن روڈ پر ایک خصوصی نشست برائے علماء کرام وکلاء، ڈاکٹرس انجینئرس ، دانشوران شہر ناندیڑ کی موجودگی میں ایک اجلاس بعنوان ’’موجودہ حالات میں تحفظ دین اور ہماری ذمہ داریاں پر خطاب فرماتھے۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے مسجد خواجگان نظامی کالونی میں منعقدہ اجلاس میں آپ نے مزید اپنے خطاب میں فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو اداء کرنے کی جانب توجہ دے۔ اسی طرح براداران وطن کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں۔ آپ کو یہ معلوم ہوکہ آج بھی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ڈھائیں جارہے مظالم کے خلاف جہاں مسلمان اپنی آواز بلند کرتے ہیں بالکل ویسے ہی غیر مسلم افراد بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ڈھائیں جارہے مظالم کے خلاف اپنی آواز کو بلند کرتے ہیں۔ مولانا موصوف نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلقیس بانو کیس معاملے میں جہاں ملک بھر میں مسلمانون نے اپنی آواز بلند کی وہی غیر مسلم بھائیوں نے بھی بلقیس بانو کے ملزمین کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح تیستا سیتلواڈ نے گجرات میں ہوئے فسادات کے معاملات کو اُجاگر کرنے کا کام انجام دیا۔ اسی کی پاداش میں اُنھیں جیل جانا پڑا ۔ ان کی رہائی کیلئے مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھائیوں نے اپنی آواز بلند کی اسی لئے مسلمانوں کو چاہے کہ وہ اپنے برداران وطن کے ساتھ معاملات کواچھے رکھیں اور مساجد میں غیر مسلم بھائیوں کو طلب کرکے مساجدیں کا اُنھیں مشاہدہ کروائیں تب ہی کہی جاکر ہم اپنے براداران وطن کے ذہنوں میں پھیلی ہوئی غلط فہیموں کو دور کرسکیں گے۔اس اجلاس میں مسجد میں کثیر تعداد میں مسلمان موجو دتھے۔