مسلمانوں کے لیے احمد آباد میں گھر خریدنا مشکل کیوں؟
تنگ و تاریک گلیاں، ایک دوسرے میں گھسے ہوئے مکان، خراب سڑکیں، پرانی اور ویران عمارتیں اور سڑک کے کنارے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے مندر۔
انڈیا کے مغربی شہر احمد آباد کا شاہ پور علاقہ کچھ ایسا ہی منظر پیش کرتا ہے۔
شاہ پور، کالو پور اسمبلی کے علاقے میں آتا ہے۔ مقامی کانگریس ایم ایل اے غیاث الدین شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس علاقے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی تقریباً برابر ہے۔
گجرات کے کشیدگی والے علاقوں میں جائیداد کی فروخت یا منتقلی پر پابندی عائد ہے۔ مقامی لوگ کا خیال ہے کہ اسی قانون کی وجہ سے اس علاقے کی آبادی اتنی گنجان ہے۔
اس قانون کا اثر پراپرٹی کے تمام معاملات نظر آتا ہے اور خاص طور پر اگر یہ معاملہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہے تو اس کا نفاذ اور بھی سختی سے کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت کشیدگی والے علاقوں میں ضلع کے مجسٹریٹ کے پاس جائیداد کی خرید و فروخت کو اپنے ڈھنگ سے منضبط کرنے کا حق ہے۔
بعض تجزیہ کاروں اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی قانون کی وجہ سے مسلمانوں کے پاس زمین اور جائیداد خریدنے کے اختیارات محدود ہو رہے ہیں اور ان کے لیے کشیدہ ماحول والے علاقوں میں جائیداد خریدنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
احمد آباد میں مجموعی طور پر 770 علاقوں کو کشیدہ قرار دیا گيا ہے اور ان میں سے 167 علاقے صرف شاہ پور میں آتے ہیں، جبکہ پوری ریاست میں کشیدگی والے علاقوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
یہ قوانین عام طور پر فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقوں میں جائیداد کی خرید و فروخت کو منضبط کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے علاقوں میں املاک کی خرید و فروخت سے قبل ضلع مجسٹریٹ سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے بعد ہی مالکانہ حق کی منتقلی ہو سکتی ہے۔

احمد آباد میں فصیل کے اندر آنے والا قدیم اور مشترک علاقہ حساس علاقوں میں آتا ہے۔ یہاں آج بھی صدیوں پرانے گھر موجود ہیں۔
ایک رضاکار کلیم الدین صدیقی نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہندوؤں کے لیے ان تنگ گلیوں میں گھر خریدنا آسان ہے لیکن مسلمانوں کے لیے انتہائی مشکل۔’
صدیقی مسلمان برادری کے حقوق کے لیے ریاست میں اقلیتوں کے اکثریتی علاقوں میں کام کرتے ہیں۔
حالات ایسے ہیں کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے دگنی رقم بھی پیش کی جاتی ہے تب بھی ان کے لیے ایک گھر خریدنا مشکل ہوتا ہے۔
صدیقی کہتے ہیں: ‘ریئل سٹیٹ ایجنٹ خریدار کا مذہب دیکھ کر ہی جائیداد کے دام بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی گنجان آبادی والے کشیدہ علاقے میں ہندو ایک کمرے کا گھر پانچ لاکھ روپے میں خرید سکتا ہے جبکہ اسی گھر کو خریدنے کے لیے کسی مسلمان کو دس لاکھ روپے ادا کرنا پڑ سکتے ہیں۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر مسلمان مہنگی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار بھی ہو جائے تب بھی اس کے لیے گھر خریدنا آسان نہیں ہے۔’

گھر مسلمانوں کے لیے مہنگے، ہندوؤں کے لیے سستے
45 سالہ متیش شاہ ایک مقامی ریئل سٹیٹ ایجنٹ ہیں۔ وہ شاہ پور میں املاک کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔
شاہ پور کی اونكا سوسائٹی کے پاس حال ہی میں ہونے والے ایک سودے کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسی مکان کو ایک ہندو خریدار کے لیے 36 لاکھ روپے میں طے کر لیا تھا لیکن کچھ مسلمان خریدار اسی مکان کو 70 لاکھ روپے تک میں خریدنے کے لیے تیار تھے۔
30 سالوں سے ریئل سٹیٹ کا کاروبار کرنے والے شاہ کہتے ہیں کہ ‘امیر ہندو خاندان ان علاقوں کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور اب کشیدہ علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر ہندو خاندان یا تو متوسط طبقے یا نچلے طبقے سے آتے ہیں۔’
وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں ہندو فرقہ پرست تنظیموں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کا بھی گہرا اثر ہے اور ہندو خاندان مسلمانوں کو اپنا گھر فروخت کرنے سے ڈرتے ہیں۔
سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق گجرات میں ساڑھے 58 لاکھ کے قریب مسلمان ہیں جبکہ ہندوؤں کی آبادی 5.35 کروڑ ہے۔

مسلمانوں کو گھر خریدنے کے محدود مواقع
ریسرچ سکالر شارق لالیوالا نے احمد آباد کے گنجان اور چھوٹے علاقوں میں مسلم آبادی کے سمٹنے پر تحقیق کی ہے۔ انھوں نے گیٹوائزیشن (مسلمانوں کے محلوں کے لیے گیٹو کا استعمال کیا جاتا ہے) پر محقق کرسٹوفر جے فرلے کے ساتھ مل کر کئی اہم ویب سائٹس اور اخبارات کے لیے مضامین لکھے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ‘ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس گھر خریدنے کے مواقع بہت محدود ہیں۔ روایتی طور پر وہ پرانے احمد آباد میں ہی گھر تلاش کرتے ہیں یا پھر گنجان مسلم آبادی والے علاقوں میں جاتے ہیں۔’
غیر مسلم علاقوں میں مسلمانوں کے مکان زمین خریدنے کے مواقع نہ کے برابر ہیں۔ ان علاقوں میں مسلمانوں کے مکان خریدنے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ کلیم کہتے ہیں کہ قانون میں تو مذہبی تفریق نہیں ہے لیکن اس سے متاثر صرف مسلمان ہی ہیں۔

وشو ہندو پریشد اور مسلم خریدار
یہاں ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ اگر کوئی مسلمان غیر مسلم علاقے میں مکان خرید بھی لے تو وہاں رہ نہیں پاتا۔
55 سالہ گلزار مومن ریئل سٹیٹ ایجنٹ ہ������ں۔ شاہ پور کے ون ماولیکا نیپولے کے علاقے میں ان کا گھر ہے۔ مومن اس علاقے میں رہنے والے واحد مسلمان ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ گھر خریدنے کے فوراً بعد ان پر وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے حملہ کیا۔ مومن اپنے گھر کو فروخت یا کسی کو کرایے پر دینا چاہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ وشو ہندو پریشد کے رہنما کسی مسلمان کو اسے دیے جانے کے سخت خلاف ہیں۔
مومن کا کہنا ہے کہ پولیس نے یقینی طور پر مداخلت کی ہے لیکن درمیان کے کچھ لوگوں نے ان پر پولیس سے شکایت نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘گھر کا مالک ہونے کے باوجود میں اپنی پسند کے خریدار کے ہاتھوں اسے بیچنے سے قاصر ہوں۔’
وہ کہتے ہیں کہ اگر علاقے میں کوئی تیسرا شخص کسی سودے کی مخالفت کرتا ہے تو ضلع مجسٹریٹ کے پاس اسے منسوخ کرنے کا حق ہے۔
دوسری طرف وشو ہندو پریشد کے جنرل سیکریٹری اشون پٹیل کہتے ہیں: ‘اگر ایک مسلمان علاقے میں آئے گا تو اس کے بعد دوسرے بھی آئیں گے اور ہم اپنے علاقوں میں یہ نہیں ہونے دیں گے۔ اگر پراپرٹی کسی ہندو کو فروخت کی جاتی ہے تو ہم اس کی مخالفت نہیں کرتے۔’
وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا کھانا پینا اور طرز زندگی ہندوؤں سے مختلف ہے اور اس کی وجہ سے ہندوؤں کو پریشانی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر کسی مسلمان کو سوسائٹی میں گھر خریدنے دیا گیا تو اس کے بعد دوسرے مسلمان بھی یہاں گھر خریدنے لگیں گے اور ہندوؤں کو اپنا علاقہ چھوڑ کر جانا پڑے گا۔’
وشو ہندو پریشد کے سابق رہنما پروین توگاڑیا کا بھی یہی خیال ہے کہ گجرات میں اس قانون کی ضرورت ہے اور وہ کہتے ہیں کہ قانون موجود ہے اور اس پر عمل در آمد ضروری ہے۔

پوشیدہ خریدار
اس کے برعکس ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں پریشان مسلمانوں نے اپنے ہندو دوستوں کی مدد سے گھر خریدا ہے۔ عمران ناگوری چار بھائیوں میں سے ایک ہیں اور انھیں علیحدہ مکان کی ضرورت محسوس ہوئی۔
وہ کہتے ہیں: ‘میرے لیے اپنے نام پر پراپرٹی خریدنا مشکل تھا کیونکہ ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لینے میں دقت آ رہی تھی اس لیے میں نے اپنے ایک ہندو دوست کے نام پر گھر خریدا۔‘
انھوں نے اوانیکا سوسائٹی میں ایک ہندو دوست کے نام پر 32 لاکھ روپے میں گھر خریدا۔
وہ کہتے ہیں: ‘جب پڑوسیوں کو پتہ چلا کہ گھر کی قیمت میں نے چکائی ہے تو ہنگامہ ہوا اور پولیس نے بھی مجھے پریشان کیا۔’
انہوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘میں نے جائیداد پر 32 لاکھ روپے خرچ کیے لیکن مجھے اس کے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیا جاتا۔ میں یہ پراپرٹی کسی مسلمان کو نہیں بیچ سکتا کیونکہ پڑوسیوں کا دباؤ ہے اور وہ میرے اس گھر کو کوڑیوں کے دام خریدنا چاہتے ہیں۔’
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک مسلم نوجوان نے بتایا کہ انھوں نے بھی اپنے ایک ہندو دوست کے نام پر پراپرٹی خریدنے کی کوشش کی لیکن جب پریشد کے لوگوں کو پتہ چلا تو ان لوگوں نے اس نوجوان پر حملہ کر دیا۔
وہ کہتے ہیں: ‘میں نے پولیس میں شکایت نہیں کی اور اس علاقے میں گھر خریدنے کا خیال ترک کر دیا۔’

کیا اس قانون کی واقعی ضرورت ہے؟
یہ قانون پہلے سنہ 1986 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعلیٰ چمنا بھائی پٹیل کی کانگریس حکومت نے اس قانون کو 1991 میں منظور کیا تھا۔
26 جون 2018 کو کشیدہ علاقوں کی فہرست میں 70 مزید علاقوں کو شامل کر لیا گیا۔
ضلع مجسٹریٹ کے پاس ان کے اجازت کے بغیر خرید و فروخت ہونے والی زمین کو ضبط کرنے کا بھی حق ہے۔
تازہ ترین نوٹیفکیشن کے مطابق احمد آباد کے 770 علاقے سنہ 2023 تک کشیدہ علاقوں کی فہرست میں رہیں گے۔

گجرات کے جنرل سیکریٹری جے این سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: ‘ان علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی تاریخ کے پیش نظر ہی حکومت نے اس قانون کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔’ وہ کہتے ہیں کہ اس قانون کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس کی وجہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
تاہم بعض تجزیہ نگار مسٹر سنگھ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ دانش قریشی کا کہنا ہے کہ ‘یہ بدقسمتی ہے کہ ریاستی حکومت یہ محسوس کر رہی ہے کہ اس طرح کی دفعات کے مثبت نتائج آ رہے ہیں۔’
وہ کہتے ہیں: ‘یہ قوانین 1991 سے نافذ ہیں اور ہم نے سنہ 2002 میں گجرات میں انڈیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ خوفناک فسادات کا مشاہدہ کیا ہے۔’

ہندو نواز گروپ اس قانون کا کیسے استعمال کرتے ہیں؟
شاہ پور علاقے میں کام کرنے والے ایک مسلم ریئل اسٹیٹ ایجنٹ کے مطابق کشیدہ علاقے میں پریشد اور بجرنگ دل کا ایک نیٹ ورک ہے جس میں جائیداد کی خریدو فروخت کی نگرانی کی جاتی ہے۔
وی ایچ پی کے رہنما اشون پٹیل کا کہنا ہے کہ ان کے کارکن جائیداد کے معاملات پر نظر رکھنے ہیں اور یہ یقینی بناتے ہیں کہ کوئی مسلمان ہندوؤں کے علاقے میں گھر نہ خرید سکے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کا کچھ حد تک غلط استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ قانون کے تحت مقامی لوگ بھی ضلعی دفتر میں درخواست دے کر کسی بھی ملکیت کی فروخت کی مخالفت کر سکتے ہیں۔
بعض مسلمان خریداروں کا یہ بھی الزام ہے کہ پریشد کے لوگ کسی خرید و فروخت کے لیے بہت زیادہ رقم کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن پٹیل ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
بی بی سی اردو ویب سائٹ کی رپورٹ