مدارس کی مسماری اور امت بے چاری
✍:پرویز نادر
ایک طرف دعوہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اور دوسری طرف انصاف کے قتل کی بے نظیر مثالیں،
بے روزگاری ،قتل و غارت گری اور بے امنی کو قابو پانے میں ناکام لیکن مسلمانوں کے تئیں ظلم کے نئے انداز اور طریقے و دنیا سے جداگانہ پالیسی۔
اور تعلیم و ترقی کو چھوڑ مسلم دشمنی و تعصب میں جدت پسندی و ترقی،یہ خاصہ ہندوستان ہی کا ہو سکتا ہے۔جہاں دن کی شروعات مسلم دشمنی سے ہوتی ہے اور رات اس دشمنی کی آگ بجھانے سے۔اسی دشمنی کی آگ بجھانے کے لیے ہر راستہ اختیار کیا جاتا ہے ،چاہے وہ میڈیا ہو ،پولس محکمہ ہو یا پھر عدالت سبھی کا مقصد ایک۔۔۔۔
اور جہاں فسطائیت کی علمبردار جماعت بی جے پی کی حکومت ہو وہاں تو ماضی کے سارے جابر و ظالم اور مطلق العنان حکمران بھی انسانیت کی بات کرنے لگیں گے۔سنگھی حکومت کے ناپاک مقاصد میں سے ایک مقصد مدارس اسلامیہ کو ختم کرنا ہے،جس میں قرآن اور حدیث کی تعلیمات سے روشناس لاکھوں بندگان خدا سماج و ملک کی خدمات انجام دیتے ہیں۔جو نفرت کے پجاریوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا،سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ اور دہشت گردی کی تعلیم کے بہانے ملک کے ہزاروں مدارس پر ظالموں کی میلی نظریں گڑی ہوئی ہیں۔ مدارس کو ختم کرنے کی ابتدا مدارس مخالف بیانات سے بہت پہلے ہوچکی ہے لیکن اب اس کو عملی طور پر ختم کرنے کے لیے آسام کو ہدف بنایا گیا ہے،جہاں ایک مہینے کے اندر تین مدارس کو مسمار کیا جا چکا ہے۔جس کی وجوہات میں اتنا کافی قرار دیا گیا کہ پولس نے ان مدارس کے معلمین کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا،پولس خود مدعی بھی بن گئی اور منصف بھی اور جلاد بنتے ہوئے مدارس کو ڈھادیا، نہ کوئی مقدمہ نہ سنوائی۔ان بے رحمانہ نظروں میں آسام کے ۲۲۸ مدارس اب بھی ہدف بنے ہوئے ہیں جنہیں مسمار کیا جا سکتا ہے،اور ہزاروں مدارس ہیں جنہیں تحقیقات کے نام پر آزمائش کا شکار کیا جاسکتا ہے۔مدارس کے خلاف مہم کو سر کرتے ہوئے آسام پولس نے پچھلے پانچ ماہ میں چالیس(۴۰) معلمین کو گرفتار کیا ہے۔جن کے مقدمات سے امت بے خبر ہے۔ اسی سلسلے کو دراز کرتے ہوئے یہ پیٹرن پورے ملک میں اپنایا جا سکتا ہے،جس کی مثال یوپی کی ہے جہاں تمام خانگی مدارس کے سروے کے احکام یوگی حکومت نے دے دیے ہیں۔ ویسے بھی یوگی بابا کے بلڈوزر کے تجربے کے بعد مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں سب ایک دوسرے کے معاون بنے ہوئے ہیں۔لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا دہشت گردی کے سراغ اور سرکاری زمینوں پر مدارس اور مساجد کی غیر قانونی تعمیر ہی کو ڈھونڈ نا ضروری ہے!!ہندوؤں کی دھرم شالائیں اور مندر یا کسی اور مذہب کی عبادت گاہیں اس مہم سے کیوں مثتشنیٰ ہے؟ کیا کسی مدرسے کے ساتھ کسی مندر یا عبادت گاہ کو غیر قانونی قرار دیکر مسمار کرنے کا واقعہ کہیں ہوا ہے؟سادھو سنتو کی تو گرفتاریاں بھی دہشت گرد کارروائیوں کی پاداش میں ہوچکی ہے، اور آئے دن مندروں اور دھرم آشرموں میں داسیوں اور عبادت کے لیے آئی خواتین سے جنسی زیادتی اور نذرانون کے گھوٹالے کی خبریں میڈیا کی زینت بنی رہتی ہے اور جن کا جرم بھی ثابت ہوچکا ہے جس کی حالیہ مثال لگایت مٹھ کے سنت شیو مورتی مروگا سوامی جسے نا بالغ لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے،اور ناندیڑ کی عدالت میں یشونت شندے کا دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اقبالی بیان ہے،تو کیا ان دہشت گردوں نے جہاں یہ سب سیکھیا ان مقامات کو بھی ڈھایا جائے گا؟حکومت وقت کی ان سفاکانہ کارروائیوں اور اقدامات کو روکنے کے لیے بھارتی مسلمانوں میں بھی کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے کسی ایک دو لیڈران کے انفرادی بیانات حکومت پر دباؤ نہیں بنا سکتے اس کے لیے اجتماعی کوشش اور مسلک و مکتب فکر سے بالاتر ہوکر ایک آواز ہونا پڑے گا۔بے گناہوں کی گرفتاریوں اور مدارس کی مسماری کو روکنے کے لیے سبھی کو بالاتفاق آگے آنے کی ضرورت ہے
