مخدوم کچھوچھہ صوفی عالم ،عظیم مبلغ اورصاحب تصانیف کثیرہ بزرگ تھے۔ آل رسول احمد

لکھنؤ:12؍ اکتوبر(پریس رلیز)آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ صوبائی دفترلکھنؤ کے نگراں آل رسول احمد نے خطبۂ جمعہ سے قبل مسجدسید امیرعلی شاہ(نزد قیصر باغ) میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرزمین ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمع اسلام فروزاں ہوئی اور جن کے نقوش پاک کی برکت سے اس شمع کی روشنی ہر چہار سمت پھیلی ان مقدس ہستیوں میں سے ایک مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کی ذات با برکت ہے۔ آپ کے والد کانام سلطان سید ابراہیم سمنانی ہے جن کا شجرۂ نسب سید الشہداء سیدنا امام حسین سے ملتا ہے آپ کی والدہ کا نام ”سید ہ خدیجہ بیگم ” جو حضرت خواجہ احمدیسوی کی بیٹی تھیں ۔ بیگم صاحبہ نہایت عابدہ صالحہ تھیں اور قرأت قرآن کریم، ادائے نوافل اور وظائف میں شب وروز بسرکرتیں۔ اکثر شب بیداری کرتیں اور دن کوروزہ رکھتیں۔ مدت العمر میں کبھی آپ کی نماز تہجد قضا نہیں ہوتی۔انہوں نے رسالہ اشرف الفوائد حوالے سے کہا کہ مخدوم سمناں نے فرمایا ہے کہ میرے خاندان کی عظمت اور شان بلند اور شرف عالی یہاں سے تصور کرنا چاہیے کہ محمود غزنوی جیسے بادشاہ ہمارے بزرگوں کے غلام زادوں نے سلطنت اور بادشاہت کی۔ جب آپ ۴؍سال۴؍ ماہ اور ۴؍ دن کے ہوئے تو خاندانی روایات کے مطابق آپ کی تعلیم کا آغار کیا گیا۔ پانچ برس کی عمر میںآپ نے ساتویں قرأت کے ساتھ قرآن کریم حفظ کیا ۷؍مہینہ ۲۶؍دن میں یہ کمال حاصل کیا تھا۔آپ کے اساتذہ میں علی بن حمزہ الکوفی کا نا م آتا ہے جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور قرأت سبعہ کے ماہر تھے مگرآپ زیادہ تر امام عاصم اور امام نافع میں تلاوت فرماتے تھے۔جب عمرسات سال کو پہونچا نکات علمی اس خوبی کے ساتھ بیان فرماتے کہ بڑے بڑے علماء سن سن کر عش عش کرجاتے تھے۔آپ بارہ سال کی عمر میں علوم معانی وبلاغت ومعقول ومنقول تفسیر وفقہ وحدیث و اصول جملہ علوم سے فازغ ہوئے۔ دستار فضیلت سراقدس پر باندھی گئی۔ فن حدیث میں آپ نے امام عبداللہ یافعی سے مکہ معظمہ میں سند حدیث حاصل کی اور مقام اسکندریہ میں حضرت سیدنا نجم الدین کبریٰ کے صاحبزادے سے حضرت بابا مفرح اوراحمد حقانی سے بھی آپ کو سند حدیث حاصل ہوئی۔آپ آٹھویں صدی ہجری کے متحبر عالم اورمشرب صوفیہ کے عظیم مبلغ تھے۔انہوں نے کہا کہ آپ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور برگزیدہ صوفی کے علاوہ صاحب تصانیف کثیرہ بزرگ تھے آپ بیک وقت مصنف، مؤلف، مترجم،مفسر، مجدد، مصلح، محدث، فقیہ، محشی، مؤرخ، مفکر،نعت گوشاعر، منجم اور شارح تھے۔ آپ کا علم عجیب خداداد علم تھا کہ روئے زمین میں جہاں تشریف لے گئے وہیں کی زبان میں وعظ فرماتے اور اسی زبان میں کتاب تصنیف کرکے وہاں کے لوگوں کے لئے چھوڑ آتے۔ بہت سی کتابیں آپ کی اردو، عربی، فارسی، سوری، زنگی، اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں میں جو تصنیف فرمائیں جن کی فہرست اگر لکھی جائے تو ایک طومار ہو جائے گی۔

Leave a comment