‘لواسٹوری’ کو’لوجہاد’ کانام دینے کی کوششیں ناکام‘گلزاراحمداورریتو کی اسٹوری جانئے
سری نگر:9ڈسمبر۔(ایجنسیز)چھ ماہ تک ڈیٹ کرنے کے بعد گلزاراحمد اورریتوکھنڈیلوال کو لگا کہ اب شادی کرلینی چاہئے۔ الگ الگ مذہب سے ہونے کی وجہ سے ان کی شادی بالکل بھی آسان نہیں تھی۔ گلزار احمد کشمیری مسلمان ہیں تو وہیں ریتوکھنڈیلوال راجستھان کے باڑمیرضلع کے ہندو فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔گلزاراحمد 2014 میں شمالی کشمیرکے کپواڑہ سے راجستھان کے جودھپورچلے گئے اورریستوراں میں ایک شیف کے طورپرکام کرنا شروع کردیا۔ 21 سالہ گلزاراحمد 2015 میں باڑمیرچلے گئے، جہاں انہوں نے ایک اورریستوراں میں کام کرنا شروع کیا۔ گلزارجس ریستوراں میں کام کرتے تھے، وہاں اکثرریتو آتی جاتی تھیں۔ گلزاراورریتو کو ایک دوسرے سے پہلی نظرمیں پیارہوگیا۔کشمیری نوجوان گلزاراحمد کی ‘لواسٹوری’ کو’لوجہاد’ کانام دینے کی کوششیں رائیگاں، ہائی کورٹ کی مداخلت پرپولیس کوبھی لوٹنا پڑا تھا ۔گلزاربتاتے ہیں "ہم دونوں کو پہلی نظرمیں پیارہوگیا تھا۔ وہ ایک کالج طالبہ تھی اورکچھ دنوں بعد ریتوایک اسکول میں پڑھانے لگی۔ ہمارا رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔ مجھے ہمیشہ ڈر لگتا رہا کہ ہمارا رشتہ کہیں کمزورنہ پڑجائے، کیونکہ ہم الگ الگ مذہب سے آتے ہیں۔گلزاربتاتے ہیں کہ جب ریتو نے شادی کے لئے انہیں پرپوزکیا توانہوں نے منع کردیا۔ کہا کہ یہ شادی ممکن نہیں ہے۔ ریتونے کہا کہ شادی کے لئے وہ اسلام اپنانے کے لئے تیارہے، اس کے بعد گلزارتیارہوگئے۔دسمبر2017 میں گلزاراورریتوسری نگرہائی کورٹ میں جاکرشادی کرلی۔ ریتونے اسلام اپنا لیا تھا۔ عدالت میں حلف نامہ داخل کرنے کے بعد دونوں نے شادی کرلی۔ ریتونے اپنا نیا نام زینب رکھا۔ شادی کے کچھ ہی دنوں بعد مشکلوں میں اضافہ ہونے لگا۔ کیونکہ ریتوکےگھر والوں نے گلزارکے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی۔ اس کیس کو بھی ‘لوجہاد’ کا رنگ دے دیا گیا اورلوجہاد کی مہم گلزارکے خلاف چلائی گئی۔گلزارکے مطابق ان کے خلاف ریتوکے گھروالوں نے گلزارپراغوا کا معاملہ درج کرایا اورسوشل میڈیا پران کے خلاف ویڈیو وائرل کرایا۔ گلزارکہتے ہیں کہ ان کے خلاف ہیٹ کیمپین چلایا گیا۔ جب راجستھان کی ایک ٹیم کشمیرمیں ریتو کوگلزارکے پاس سے لانے پہنچی توپتہ چلا کہ ریتو کا نیا نام زینب ہوچکا ہے۔ ریتواورگلزار نے ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی۔نیوز18 سے ہوئی خاص بات چیت میں ایک پولیس نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے پولیس کو دونوں جوڑوں کی زندگی میں مداخلت نہ کرنےکا حکم دیا، اس وجہ سے ہمیں واپس راجستھان لوٹنا پڑا۔ ان کے پاس شادی کے سبھی جائزاورقانونی دستاویز تھے۔ ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد دونوں کے خلاف نفرت کا سلسلہ تھما نہیں۔ گلزاراورریتو کو ایک ویڈیو جاری کرکے وضاحت کرنی پڑی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اپنی مرضی سے ہیں۔ویڈیومیں ریتو(زنیب) نے کہا کہ میں نے اسلام اپنا لیا ہے اوراب میرا نام زینب ہے۔ ہمیں امن کے ساتھ رہنے دیں، ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں۔ گلزاراورریتو شادی کے بعد خوشی کے ساتھ رہنے لگے۔ کپواڑہ سری نگرشفٹ ہوگئے اورگلزارنے ایک مقامی کیفے میں کام کرنا شروع کردیا۔ ریتوکے گھروالوں کی اس بات کی جانکاری ملی۔ انہوں نے کشمیرآکرریتوسے ملاقات بھی کی۔گلزاراپنے فون میں فوٹیج اسکرال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریتوکے گھروالے گرمیوں میں کشمیرآئے۔ وہ یہاں دو ہفتوں تک رکے، اس دوران گلمرگ کے کئی ٹورسٹ پلیسیز(سیاحتی مقامات) پرریتو نے اپنے گھروالوں کے ساتھ لطف اٹھایا۔ ہرکسی نے میرےرشتے کو اپنا لیا تھا۔ ریتوکے گھروالوں سے ہماری اکثربات چیت بھی ہوتی رہتی تھی۔ستمبرمیں ریتوکے چچا جوکہ فوج میں لیفٹیننٹ رینک کے افسرہیں اورسری نگرمیں پوسٹیڈ ہیں، انہیں لنچ کے لئے مدعوکیا۔ گلزاربتاتے ہیں کہ بادامی باغ کینٹونمنٹ میں ریتوکے چچا کے گھرہم لوگ گئے۔ ہم نے ان کے اہل خانہ کےساتھ لنج کیا ہے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ اچھا برتاو کیا۔