پری میٹرک اقلیتی اسکالرشپ..حکومت کا رویہ سخت… تحصیلدار کے انکم سرٹفکیٹ کا لزوم… مزید شرائط سے متعلقین بیزار…

اقلیتی طلباء کو غیر وشروط اسکالرشپ ادا کرے…. لائق پٹیل

لاتور(محمدمسلم کبیر) اقلیتوں کے فلاح و بہبود کا ڈنکا پیٹنے والی ریاستی حکومت اب اقلیتی طلباء کو دی جانے والی سالانہ 1000 روپئے اسکالرشپ کے لئے اپنا شکنجہ کس لیا ہے.دراصل حکومت کسی بھی پارٹی یا پارٹیوں کے الائینس کی ہو اقلیتوں کے تعلق سے کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی ہیں.مرکزی حکومت نے اقلیتی بہبودی پالیسی کے تحت ملک میں جماعت اول تا دہم میں تعلیم حاصل کرنے والے ایسے اقلیتی طلباء جن کے سرپرستوں کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپئے سے کم ہے،ان طلباء کے لئے”پری میٹرک مائناریٹی اسکالرشپس دی جاتی ہے. جو محض ایک ہزار روپیہ سالانہ پر مبنی ہے. تاہم اس اسکیم سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے اولیائے طلباء، اسکولس کے اساتذہ کو بیسیوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.پہلے تو اسکالرشپس کی ناقص ویب سائٹ سے پالا پڑتا ہے،جس کے ذریعے فارم کی خانہ پری کرنا جوئے شیر لانا ہے.کبھی کبھار تو دن، دن بھر نہیں چلتی،اولیائے طلباء کے موبائل نمبر کا لزوم ہونے سےفارم کی خانہ پری کے دوران آنے والے”ون ٹائم پاسورڈ”کے لئے رکنا لازمی ہے.ان سرپرستوں کو اس کام کے لئے( 1000 روپئے حاصل کرنے کی امید میں) ایک یا دو روز کی مزدوری سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے.

دوسری بات اب حکومت نے ان اولیائے طلباء کو اپنے خود مصدقہ انکم سرٹیفکیٹ کے بجائے تحصیلدار کی جانب سے مصدقہ انکم سرٹیفکیٹ لازمی کیا ہے.جس کی کاروائی کر کے ایک یا دو دن میں اس کا حصول قطعی ناممکن ہے.بلکہ اس کی فیس اور دو دن کے روزگار کا اندازہ لگائیں تو ایک ہزار روپئے سے رقم تجاوز ہوجا تی ہے.بڑے شہروں میں حکومت کے اس طرح کے بیجااور غیر موزوں شرائط سے بیزار ہو رہے ہیں. دوسری جانب اساتذہ فارم بھرنے کے لئے موبائل، اپنے بچوں کے لیاپ ٹیاپ یا پھر اسکول موجود کمپیوٹر کا استعمال کررہے ہیں لیکن ویب سائٹ ساتھ نہ دینے سے کافی پریشان حال نظر آرہے ہیں. اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ جس اسکول کی جانب سے فریش اور رینیول طلباء کے فارم بھرے جاچکے ہیں اور جن کو ڈسٹرکٹ نوڈل آفیسر تک آن لائین پہنچایا بھی گیا ہے اب پھر سے ان تمام فارمس کو واپس اسکول لاگ ان پر ارسال کرکے کہا گیا ہے کہ ان فارمس کی دوبارہ جانچ کرکے ازسرنو ڈسٹرکٹ نوڈل آفیسر کو بھیج دیا جائے.

اس طرح کے اچانک جاری کردہ احکام سے اساتذہ اور صدر مدرسین میں ہلچل مچ گئی کہ بڑی مشکل سے فارمس فارورڈ کئے گئے اور اب پھر سے جانچ کرکے فارورڈ کرنا انتہائی غیر موزوں احکام ہے.پچھلے دو چار دن سے اساتذہ اور صدر مدرسین، اسکالرشپس کی ویب سائٹ کی ناقص کارکردگی سے کافی پریشان نظر آرہے ہیں اور اب ان اسکول کے ذمہ داران کو اسکالرشپ حاصل کرنے والے تمام طلباء کے پانچ سال کے فارم اور منسلکہ تمام ثبوت و کاغذات کو محفوظ رکھنا ہے جس کی جانچ کے لئے ایک کمیٹی بھی شعبہ تعلیمات کی جانب سے قائم کی گئی ہے جو ہر اسکول جا کر اس کا جائزہ لے کر ایک متعینہ فارم ، صدرمدرس کا حلفنامہ لے گی.
حکومت کے اس غیر منصفانہ احکامات کے تعلق سے مہاراشٹرراجیہ الپسنکھیانک شکشک سنگھٹنا کے ریاستی صدر لائق پٹیل نے ہمارے نمائندے محمدمسلم کبیر سے کہا کہ حکومت اقلیتی طلباء کو یکساں طور پر غیر مشروط اسکالرشپس دیدے،انکم سرٹیفکیٹ اور دوسرے کاغذات کے حصول کے لئے اولیائے طلباء کو جن مصائب سے گذرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے.حکومت اور شعبہ تعلیمات کے پاس ہر طالب علم کا ڈاٹا موجود ہے اور متعلقہ ہیڈماسٹرس کی جانب سے ہی درخواستیں آن لائین فارورڈ کی جاتی ہیں اقلیتی طلباء پر مزید شکنجہ کسنا غیرمناسب ہے.

لاتور کے ایک مزدور سرپرست شیخ خواجہ بھائی نے کہا کہ حکومت اقلیتی طلباء کے ساتھ مذاق کر رہی ہے.ایک ہزار روپئے اسکالرشپ حاصل کرنے کے لئے ڈیڑھ ہزار روپئے گنوانے پڑ رہے ہیں کہہ کر ایک مشہور کہاوت پیش کی کہ” بھیک نہ دینا ہے تو مت دے لیکن اپنے کتے کو باندھ کے رکھ”.