غیرمعمولی واقعات‘: آٹھ دن میں امریکہ نے چار نامعلوم ’چیزیں‘ مار گرائیں

517

امریکی صدر جو بائیڈن کے حکم پر ایک امریکی لڑاکا طیارے نے اتوار کو ہیورون جھیل کے اوپر ایک اور ’نامعلوم چیز‘ کو مار گرایا، جو گذشتہ آٹھ دنوں میں اس قسم کی چوتھی کارروائی ہے۔خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پینٹاگون حکام کا خیال ہے کہ دوران امن امریکی فضائی حدود میں ہونے والے ان غیرمعمولی واقعات کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

شمالی امریکی ایروسپیس ڈیفنس کمانڈ (این او آر اے ڈی) اور امریکی شمالی کمان کے سربراہ جنرل گلین وان ہرک نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ فضا میں بار بار کارروائی کی ایک وجہ وہ ’ہائی الرٹ‘ ہے، جو جنوری کے آخر میں امریکی فضائی حدود میں چین کے مبینہ جاسوس غبارے کے واقعے کے بعد کیا گیا تھا۔اس کے بعد سے گذشتہ ہفتے لڑاکا طیاروں نے کینیڈا اور الاسکا میں بھی دو نامعلوم چیزوں (Objects) کو مار گرایا تھا۔

پینٹاگون حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان نامعلوم چیزوں سے کسی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا، لیکن ان کے بارے میں معلومات اتنی کم ہیں کہ پینٹاگو حکام یو ایف او (اڑن طشتری) سمیت کسی بھی چیز کے امکان سے انکار نہیں کر رہے۔
ہوم لینڈ ڈیفنس کی معاون وزیر دفاع میلیسا ڈالٹن نے کہا کہ ’ہم اپنی فضائی حدود کی زیادہ باریک بینی سے جانچ پڑتال کر رہے ہیں، جس میں ہمارے ریڈار کی صلاحیت بڑھانا بھی شامل ہے، جس سے کم از کم جزوی طور پر (ان اجسام میں) اضافے کی وضاحت ہوسکتی ہے۔‘

امریکی حکام نے واضح کیا ہے کہ وہ نامعلوم ریڈار بلپس (ریڈار پر نمودار ہونے والے اجسام) کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں اور ان کا جائزہ لینے کے لیے احتیاط کے طور پر فضائی حدود کو بند کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔

لیکن غیر معمولی طور پر جارحانہ ردعمل سے یہ سوالات اٹھ رہے تھے کہ کیا طاقت کا اس طرح استعمال ضروری ہے، بالخصوص جب انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ یہ چیزیں قومی سلامتی کے لیے زیادہ تشویش کا باعث نہیں تھیں اور یہ کارروائیاں صرف احتیاط کے طور پر کی گئیں۔جنرل گلین وان ہرک نے کہا کہ امریکہ نے اپنے ریڈار کو ایڈجسٹ کیا ہے تاکہ وہ سست چیزوں کا سراغ لگا سکے۔