صرف مسلم دشمنی کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھا جارہا ہے

0 22

حکومت کا رویہ متعصبانہ ہے اور یہ جمہوریت کی نہیں بلکہ ڈکٹیٹر شپ کی علامت ہے: مولانا ندیم صدیقی

ممبئی۔29؍ نومبر ( پریس ریلیز ) حکومت کی جانب سے مراٹھا ریزرویشن کا بل اسمبلی میں پیش کئے جانے اورمسلم ریزرویشن سے انکار کئے جانے پر آج یہاں جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا ندیم صدیقی نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے اس رویئے سے اس کی مسلم دشمنی اور فرقہ پرستی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ حکومت کے اس روئیے سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ یہ حکومت مسلم دشمنی میں کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور اسے ریاست کے مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ حکومت آر ایس ایس کے نظریات اور اس کے اشارے پر کام کررہی ہے۔ حکومت نے صرف مسلم دشمنی کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دیا ہے، حکومت کا یہ رویہ متعصبانہ ہے اوریہ جمہوریت کی نہیں بلکہ ڈکٹیٹر شپ کی علامت ہے۔ دفتر جمعیۃ علماء مہاراشٹر سے جاری اپنے اخباری بیان میں مولانا ندیم صدیقی نے مزید کہا ہے کہ اب ان مسلمانوں کو ہوش آجانا چاہئے جو بی جے پی وشیوسینا حکومت کی کسی نہ کسی طور پر حمایت کرتے رہے ہیں۔ مسلم دشمنی اس حکومت کی سرشت میں شامل ہے، یہ کبھی مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ کانگریس واین سی پی حکومت نے مراٹھا ریزرویشن کے ساتھ مسلمانوں کو بھی ان کی تعلیمی ، معاشی وسماجی پسماندگی کی بنیاد پر انہیں ریزرویشن دیا تھا، جسے عدالت نے بھی منظوری دیدی تھی، جبکہ مراٹھا ریزرویشن پر روک لگادیا تھا۔ اس لحاظ سے مسلمانوں کو ریزرویشن دینا مراٹھوں کو ریزرویشن دینے کی بہ نسبت کہیں زیادہ آسان تھا۔ لیکن یہ حکومت مسلم دشمنی میں اس قدرمبتلا ہے کہ اس نے مراٹھوں کو تو ریزرویشن دیدیا لیکن مسلمانوں کو ریزرویشن دینے سے انکار کردیا۔ اس پر ستم یہ کہ اس نے اپنے اس غیرجمہوری وغیر آئینی فعل کو مذہب کے لبادے میں چھپارہی ہے کہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن طلب ہی نہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم طبقہ کی تعلیمی، سماجی و معاشی پسماندگی کے تعلق سے راجندر سچر کمیٹی ،رنگا نا تھ مشرا کمیشن اور محمو د الرحمن کمیٹی نے اپنی سفارشات میں واضح طور پر مسلمانوں کو ریزپرویشن دینے کی بات کہی ہے۔ ان تمام سفارشات کے باوجود حکومت نے مسلمانوں کو ریزرویشن نہ دے کر یہ صاف کردیا ہے کہ اسے مسلمانوں کی پسماندگی سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ چاہتی ہے کہ مسلمان مزید پسماندہ ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کسی ایک قوم یا کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی پسماندگی نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کی پسماندگی ہے اور کسی قوم کو پسماندہ رکھ کر ریاست وملک کسی طور ترقی نہیں کرسکتی۔ مولانا ندیم صدیقی نے سوال کیا کہ کیا یہی ہے بی جے پی کا سب کا ساتھ سب کا وکاس کہ مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ مستحکم طبقے کو ۱۶؍ فیصد ریزرویشن دیدیا جائے کیونکہ حکومت میں ان کی نمائندگی ہے اور ایک مستحق طبقے کو محض اس لئے اس کے جائز حق سے محروم کردیا جائے کہ اس کا کوئی دوسرا مذہب ہے اور حکومت میں اس کی آواز کمزور ہے؟ اگر یہی بی جے پی کا وکاس ہے تو ایسے وکاس پر لعنت ہے۔مولانا ندیم صدیقی نے مزید کہا کہ اگر مسلمانوں کے تعلق سے حکومت ذرہ برابر بھی سنجیدہ ہوتی تو آج مراٹھا ریزرویشن کے ساتھ مسلمانوں کے ریزرویشن کا بل بھی وہ اسمبلی میں پیش کرتی۔ لیکن اس کے برخلاف وزیراعلیٰ نے صاف طور پر مسلمانوں کو ریزرویشن دینے سے انکار کردیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے نے مسلمانوں کو بددل کردیا ہے اور انہیں اب اس حکومت سے کوئی امید نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسلمان اپنے حقوق کے لئے اب حکومت کا نہیں بلکہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔ حکومت کے فیصلے سے ہم بد دل ضرور ہوئے ہیں لیکن ناامید نہیں ہوئے ہیں، ابھی عدالتی راستہ ہمارے لئے باقی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ مسلمان تعلیمی ، سماجی و معاشی اعتبار پسماندگی کے شکار ہیں،اسی بنیاد پر سابقہ حکومت نے مسلمانوں کو ریزرویشن دیا تھا جسے عدالت نے بھی برقرار رکھا تھا۔ حکومت کا ذہنی فطور اسی وقت کھل کر سامنے آگیا تھا جب عدالت نے سابقہ حکومت کے آرڈیننس کو لیپس ہوجانے دیا تھا۔انہوں نے حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنا متعصبانہ رویہ ترک کرے اور اس سلسلے میں فوری کار وائی کر کے مسلمانوں کو بھی ان کی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن کو بحال کرے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، ہم ریزرویشن کی لڑائی لڑتے رہیں گے۔قوموں کی زندگی میں سرکاریں آتی جاتی رہتی ہیں، ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ تحریک رنگ لائے گی اور انشاء اللہ تاخیر سے ہی سہی، لیکن ایک نہ ایک دن ریزرویشن ضرور مل کر رہے گا۔