شہری شادی، طلاق:یواے ای میں پرسنل اسٹیٹس قانون کانفاذ؛آپ کوکیاجاننے کی ضرورت ہے؟

276

متحدہ عرب امارات نےغیرمسلم تارکینِ وطن کو قانونی مساوات اور تحفظ مہیا کرنے کے لیے ایک بڑا اقدام کیاہے۔اماراتی حکومت نے اس ضمن میں فیڈرل پرسنل اسٹیٹس لا (2022 کا وفاقی قانون نمبر 41) کابدھ سے نفاذ کیا ہے۔یہ شادی، بچّوں کی تحویل، طلاق اور وراثت جیسے اہم خاندانی امورکے لیے ایک جامع حکمتِ عملی پیش کرتا ہے۔العربیہ نے دبئی میں قائم بی ایس اے لیگل فرم کے قانونی ماہر اورایسوسی ایٹ مارون ابو حرب سے اس نئے قانون کی اہمیت اور متحدہ عرب امارات میں مقیم غیرمسلم تارکین وطن کے لیے اس کے مضمرات کے بارے میں بات کی ہے۔

سول شادی:نیا قانون غیر ملکی شہریوں کوسول شادی میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے اور یہ عمراورباہمی رضامندی جیسے مخصوص معیاروں سے مشروط ہے۔ سول شادی کے جواز کی تصدیق ایک جج کے ذریعہ کی جانی چاہیے۔سول شادی بھی ایک قسم کی شادی ہے جو مذہبی اداروں کے بجائے ریاست یا سول حکام کے ذریعے انجام پاتی ہے اورتسلیم کی جاتی ہے۔شہری شادی میں جوڑا ریاست کے قوانین کے ذریعہ قانونی طور پر ایک دوسرے کا پابند ہوتا ہے، اوران کے بندھن کو قانونی طورپرجائز شراکت داری کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

سول شادیاں عام طور پر ایک جج ، امن کے جج، یا دیگر مجاز سرکاری عہدہ داروں کے ذریعہ انجام دی جاتی ہیں۔ شادی کے تقاضے،جوڑے کے قانونی حقوق اور ذمہ داریوں کا تعیّن ریاست کی طرف سے کیا جاتا ہے اور اکثرمخصوص قوانین اوروہ ضوابط کے تابع ہوتے ہیں۔سول شادیوں کو مذہبی شادیوں کا سیکولرمتبادل سمجھا جاتا ہے اورعام طور پر ان جوڑوں کی طرف سے منتخب کیاجاتا ہے جو مذہبی شادی نہیں کرنا چاہتے ہیں یا جو مختلف مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔

سول شادی میں میاں بیوی معاہدے کی شرائط پرمتفق ہونے کے پابند ہیں۔اس میں شادی کی مدت کے دوران میں حقوق اور ذمہ داریاں اور طلاق کے بعد کے حقوق شامل ہیں۔ابوحرب نے العربیہ کو بتایا کہ شادی کے عمل میں تصدیقی جج کی جانب سے تیار کردہ فارم کو پر کرنا اور تمام شرائط اور طریق کار کو پورا کرنے کے بعد اسی جج کی طرف سے اسے قانونی شکل دینا شامل ہے۔’’معاہدہ سرکاری رجسٹر میں درج کیا جائے گا، جبکہ سول شادی کے لیے دولسانی معاہدہ فارم کی اجازت دی جائے گی‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ انھیں نئے قانون کے تحت تسلیم کیا جائے گا جو ایک اہم تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات نے پہلے اسے پرانے قانون کے تحت تسلیم نہیں کیا تھا ، جس کے نتیجے میں غیرمسلم تارکین وطن کوطلاق کی صورت میں عائلی عدالت کی کارروائی کے تابع اپنے اثاثوں معاملہ کرنا پڑتا ہے‘‘۔

طلاق:دبئی سے تعلق رکھنے والے قانونی ماہر نے مزید کہا:’’اس نئے قانون نے فیملی گائیڈنس کمیٹی کو رجوع کرکے طلاق کے عمل کوکئی طریقوں سے تیزکیا ہے۔غیرمسلم تارکین وطن کواب طلاق کی صورت میں اثاثوں کی تقسیم کے معاملے میں زیادہ قانونی تحفظ حاصل ہوگا‘‘۔یہ قانون طلاق کے عمل کو آسان بناتا ہے اور شریک حیات کو غلط ثابت کیے بغیر کارروائی شروع کرنے کے قابل بناتا ہے۔نیزطلاق کے دوران اور بعد میں ہر فریق کے حقوق اور ذمہ داریوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ابوحرب نے بتایاکہ ’’اس نئے جاری کردہ قانون کا شادی کے عمل پرکافی اثرپڑا ہے۔کم سےکم 21 سال کی عمر حاصل کرنے، میاں بیوی دونوں سے تحریری یا زبانی رضامندی حاصل کرنے اور کسی بھی سابقہ ازدواجی تعلقات کوظاہر کرنے کی شرط کوسول شادی کے معاہدے کے لیے ضروری شرائط مقررکیا گیا ہے۔

نئے قانون کے تحت، دونوں شراکت داروں کو اپنے شادی کے معاہدے کی شرائط پرباہمی معاہدے تک پہنچنا ہوگا، جس میں شادی کے دوران اور طلاق کے بعد ان کے حقوق اور ذمہ داریاں بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ، یہ کسی بھی ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت کے بغیر شریک حیات میں سے کسی کو بھی طلاق لینے کی اجازت دیتا ہے۔طلاق کاعمل پہلی سماعت پرعدالتی فیصلے کے ذریعے ہوتا ہے اور طلاق یافتہ خاتون عدالت میں ایک علاحدہ درخواست کے ذریعے اپنے سابق شوہر سے نان ونفقہ کے خرچے کی درخواست دے سکتی ہے۔ ابو حرب نے وضاحت کی کہ معاوضے کی درخواست کی قبولیت اور اس کی شرائط کا تعیّن جج کی طرف سے کیا جاتا ہے اوراس کا فیصلہ شادی کے برسوں کی تعداد، ہر شریک حیات کی عمر اور مالی حیثیت ، اور طلاق میں شوہر کے تعاون کی حد جیسے عوامل کی بنیاد پرکیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا:’’قانون بچّوں کی ماں کی دیکھ بھال کے اخراجات اور ان کی دیکھ بھال میں بیوی کی محنت کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ تاہم، بیوی کی دوبارہ شادی کی صورت میں یا بچّوں کی کفالت ختم ہونے کی صورت میں اس کا گزارہ الاؤنس یا نان ونفقہ ضبط کیا جا سکتا ہے‘‘۔قانون میں یہ تبدیلی طلاق کے عمل کو ہموارکرتی ہے اورعلاحدگی کے خواہاں شریک حیات کو مزید لچک فراہم کرتی ہے۔

بچّوں کی تحویل:نئے پرسنل اسٹیٹس لانے طلاق یافتہ والدین کے درمیان مشترکہ تحویل قائم کرکے بچّوں کی حوالگی کے اصول کوبھی تبدیل کردیا ہے جو ان کی علاحدگی کے بعد’’عام اصول‘‘ہے۔یہ بچّےکی نفسیاتی صحت کومحفوظ رکھنے اوران پرطلاق کےاثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے ہے۔ابوحرب نے بتایا کہ بچّوں کی تحویل کے مسئلہ پر والدین کے درمیان اختلاف کی صورت میں، کوئی بھی فریق معاملے کو حل کرنے کے لیے عدالت کی مداخلت کا مطالبہ کرسکتا ہے۔عدالت کے پاس ایسے فیصلے کرنے کی صوابدید ہے جو بچے کے بہترین مفاد میں ہوں۔

قانون میں ان تبدیلیوں کے طویل مدتی مضمرات کا ابھی مکمل طور پرتعیّن نہیں کیا گیا ہے،لیکن ابو حرب کو توقع ہے کہ ان سے مقامی معیشت میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔انھوں نے وضاحت کی کہ ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر مسلم تارکین وطن اب زیادہ اعتماد کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں بڑی مقدار میں رقوم منتقل کرنے کے قابل ہوں گے،یہ جانتے ہوئے کہ ان کے اثاثے نئے قانونی فریم ورک کے ذریعہ محفوظ ہیں‘‘۔

ان کے بہ قول :’’یہ دیکھنادلچسپ ہوگا کہ عدالتیں مستقبل میں ان تبدیلیوں کی تشریح اوراطلاق کیسے کرتی ہیں۔ تاہم، یہ متحدہ عرب امارات میں غیرمسلم تارکین وطن کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مثبت قدم ہے اور ممکنہ طور پر مقامی معیشت میں زیادہ سرمایہ کاری کا باعث بنے گا‘‘۔متحدہ عرب امارات غیر ملکیوں کے لیے اپنی اپیل کو بڑھانے کے لیے متعدد اصلاحات پرعمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔ 2021 کے بعد سے ، ملک نے متعدد لچکدار ویزا آپشنز متعارف کرائے ہیں۔ان میں باوقار گولڈن ویزا ، گذشتہ ماہ شراب ٹیکس کا خاتمہ اور لازمی بے روزگاری انشورنس اسکیم کا نفاذ ایسے اقدامات شامل ہیں۔