شمشیر خان پٹھان سابق اسسٹنٹ پولس کمشنر اور عوامی وکاس پارٹی کے بانی و صدر اپنی آنکھوں میں خواب سجائے ، آنکھیں موند لیں

رات ۲ بجکر دس منٹ پر شمشیر پٹھان صاحب کے بھانجے فیاض پٹھان کا مسیج ملا ۔ ’’ شمشیر پٹھان صاحب نہیں رہے ۔‘‘ مسیج پڑھتے ہی جو شعر ذہن میں آیا ، وہ تھا ’’ آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں ، سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ۔
۲۰۱۱ کی بات ہے ، پٹھان صاحب ڈونگری پولس اسٹیشن میں تھے ، ایک خاتون اور اس کی بیٹی کی گرفتاری کو لے کر کچھ تنازعہ ہو گیا تھا ۔ خواتین کی تنظیموں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا ۔ میں اس وقت روزنامہ صحافت میں تھی ، پٹھان صاحب کے تعلق سے یہ خبر میرے نام سے اخبار میں شائع ہو ئی تھی ۔ پٹھان صاحب نے صحافت کے دفتر میں فون کر کے کہا تھا کہ وہ اس وقت پولس اسٹیشن میں موجود نہیں تھے ، یہ ان کی غلطی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس گرفتاری کے لیے ذمہ دار ہیں ۔ اس کے بعد میں اس واقعے کو بھول گئی تھی۔ پھر کچھ دنوں بعد ڈاکٹر ظہیر قاضی صاحب کے بیٹے کی شادی میں دلی دربار والے جعفر بھائی نے میرا تعارف پٹھان صاحب سے کراتے ہوئے کہا ۔ ’’ پٹھان صاحب ، یہ صحافی شیریں دلوی ہیں ۔ ‘‘ سنتے ہی وہ چونک گئے اور مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’’ اوہ ، تو وہ تم ہو ، جو میرے خلاف خبریں لگاتی رہتی ہو؟ چلو کوئی بات نہیں ، میں اپنی ڈیوٹی کر رہا ہوں اور تم اپنی ۔ ‘‘
اس کے بعد پٹھان صاحب کا تقرر وڈالا پولس اسٹیشن میں ہوا ، تو ایک دن سماجی خدمت گار سلیم الوارے صاحب نے کہا کہ ایک بہت ہی اچھے اور ذمہ دار پولس افسر سے آپ کی ملاقات کروانا چاہتا ہوں ، ہو سکے تو ان کا انٹرویو کر لینا ۔ مجھے قطعی علم نہیں تھا کہ سلیم الوارے صاحب میری ملاقات شمشیر خان صاحب سے کروانے والے ہیں ۔
جب ہم وڈالا پولس اسٹیشن پہنچے ، تو دیکھا برآمدے میں کچھ بچے کاپی کتاب اور پینسل لیے کچھ لکھ رہے ہیں ، پڑھ رہے ہیں اور با وردی پولس والے انہیں پڑھا رہے ہیں ۔ پولس افسر کے رو برو ہوتے ہی مجھے حیرت ہوئی ، کیونکہ وہ شمشیر خان پٹھان صاحب تھے ۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ پولس اسٹیشن کے برآمدے میں یہ بچے کیا کر رہے ہیں ؟تو کچھ توقف کے بعد انہوں نے تفصیل بیان کی ۔’’ گلی محلوں میں آوارہ بھٹکنے والے وہ بچے ہیں ، جن کا ابھی تک کسی اسکول میں داخلہ نہیں ہو سکا اور یہ اسکول میں داخلے کی عمر سے بڑے ہو چکے ہیں ، اس لیے ان بچوں کو روزانہ دو گھنٹے کے لیے یہاں بلایا جاتاہے ، ہمارے اسٹاف کے علاوہ کچھ اور تعلیم یافتہ نوجوان رضاکارانہ طورپر ان کو پڑھنا لکھنا سکھاتے ہیں ، اس کے بعد ہم ان بچوں کو کسی قریبی سرکاری اسکول میں داخل کر دیتے ہیں ۔ ‘‘
اس کے علاوہ وڈالا میں نشہ مخالف مہم بھی چلا رکھی تھی پٹھان صاحب نے ، جس میں سلیم الوارے صاحب ان کا ساتھ دیتے رہے ، ان کے علاوہ اقبال نیازی صاحب بھی پٹھان صاحب کی خواہش پراپنے اداکارں کے ساتھ مختلف علاقوں میں نشہ مخالف نکڑ ناٹک یا ڈرامہ پیش کرتے تھے۔ نشہ کے عادی مریضوں کا علاج کروانے کے ساتھ ساتھ ان کو بر سر روزگار کرنے کی مہم بھی جاری تھی۔ ایک پولس افسر اپنی ڈیوٹی کے علاوہ سماج کی بہتری کے لیے بہت سارے کام کر رہا تھا ۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں ، میں نے ان سے اس شعبے میں دلچسپی کی وجہ دریافت کی ، تو انہوں نے اپنے بچپن کے سخت حالات ، غربت کا مقابلہ اور ماں کی ہمت و حوصلے کی پوری روداد سنا ڈالی ۔ مجھے ان کی زندگی کی جد و جہد اور کامیابی کی یہ روداد اچھی لگی ، اس میں آنے والی نسلوں کے لیے سبق تھا ۔ شمشیر خان پٹھان صاحب سے ہونے والی گفتگو کو اگلےہی روز میں نے اخبار میں ایک مضمون کی شکل میں شائع کروا دیا ۔ جس دن ان کی شخصیت پر تحریر کیا گیا میرا مضمون انہوں نے پڑھا ، صبح سات بجے ان کا فون آیا ۔ وہ کہہ رہے تھے ۔ ’’ میری زندگی کی روداد اس انداز سے لکھی ہے کہ جتنی بار پڑھ رہا ہوں ، میری آنکھوں سے آنسو رواں ہیں ، اپنی داستان پڑھ کر میں رو رہا ہوں ، تمہارے قلم میں جادو ہے ۔ ‘‘
۹ ؍ سال کی عمر میں یتیم ہونے والا بچہ ممبئی کے ڈونگری کے یتیم خانے میں پرورش پاتا ہے ، اس کے بعد اسی ڈونگری علاقے کے پولس اسٹیشن میں بحیثیت پولس افسر اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے ۔ ڈونگری کے یتیم خانے سے ڈونگری پولس اسٹیشن تک کا سفر بہت کٹھن رہا ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد مئی۲۰۱۲ ؍ میں شمشیر خان پٹھان صاحب نے عوامی وکاس پارٹی کی بنیاد رکھی ، اس موقع پر بھی سلیم الوارے اور ببن کامبلے ان کے ہم قدم رہے ۔ تمام شہریوں کو یکساں حقوق دلانے کا عزم لیے ، ملک سے غربت کے خاتمے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ، دس سال تک وہ اپنی پارٹی کے ساتھ لوگوں کو جوڑتے رہے اور عوامی سطح پر آ کر عوام کی خدمات انجام دیتے رہے ، ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ، جس کے لیے جیل جاتے رہے ، مگر ایسا محسوس ہوتا رہا کہ عوام کو عوامی وکاس پارٹی سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ بہر حال شمشیر خان پٹھان صاحب نے جتنا ان کا حوصلہ تھا ، کام کیا۔
انہوں نے مراٹھی میں ایک کتاب لکھوائی جس کا نام انگریزی رکھا ’’ ٹروتھ نیور بیفور ‘‘ یہ ان کی آپ بیتی تھی ، جس میں پہلا حصہ ان کے بچپن سے پولس افسر بننے اور بحیثیت پولس افسر اپنی ڈیوٹی کے دوران برائیوں کا خاتمہ کرنے کے تمام واقعات درج ہیں اور دوسرے حصے میں عوامی وکاس پارٹی کے قیام کے اغراض و مقاصد درج ہیں ۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ میں نے کیا ہے ، جو کہ شائع ہو چکی اور ۲ ؍ اکتوبر ۲۰۲۲ ؍ کو اس کتاب کا اجرا ناسک میں اس اسکول میں کیا گیا ، جہاں سے پٹھان صاحب نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی ، اکتوبر ۲۰۲۲ ؍ کو اس اسکول کے پچاس سال مکمل ہو رہے تھے ، اس لیے گزشتہ پچاس سال سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا سے رابطہ کر کے سب کو اس موقع پر بلوایا گیا تھا۔ اس وقت پٹھان صاحب کو بھی بلوایا گیا تھا اور ان کی کتاب کا اجرا وہاں کے اساتذہ کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔ بحیثیت ترجمہ نگار میں بھی وہاں موجود تھی ، پٹھان صاحب سے یہ میری آخری ملاقات تھی۔
پٹھان صاحب کی کتاب کا ہندی ترجمہ بھی میں نے کیا ہے اور انگریزی ترجمہ بھی میری ٹیم کے ممبر کر رہے تھے ، مگر یہ کام مکمل نہیں ہو سکا ۔ مراٹھی کا مسودہ موجود ہے ۔ باقی سب دھرا رہ گیا ۔
پٹھان صاحب کہہ رہے تھے کہ چاروں زبانوں میں میری کتاب آئے گی ، تب میں ممبئی میں ایک ساتھ سب کا اجرا کروں گا ۔ پٹھان صاحب نہیں رہے ، مگر اپنی آپ بیتی پیچھے چھوڑ گئے ہیں ، جو نئی نسل کے لیے حوصلہ افزا اور مشعل راہ ثابت ہوگی ۔