سپریم کورٹ کا لکھنؤ ہائی کورٹ کو مقدمہ کی سماعت چھ ہفتوں میں مکمل کیئے جانے کا حکم

ہائی کورٹ میں زیر التواء مقدمات سے سپریم کورٹ ناخوش

149

نئی دہلی 10/ فروری:دہشت گردی کے الزامات کے تحت نچلی عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے ایک مسلم قیدی کی اپیل پر چھ ہفتہ میں سماعت مکمل کیئے جانے کا آج سپریم کورٹ آف انڈیا نے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کو حکم جاری کیا، عرض گذارمحمد رضوان صدیقی 2006 سے سلاخوں کے پیچھے مقید ہے اور لکھنؤ ہائیکورٹ میں عمر قید کی سزا دیئے جانے والے نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف داخل اپیل 2008 سے التوا ء کا شکار ہے۔

جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے ملزم کی ضمانت عرضداشت پر بحث کرتے ہوئے ایڈوکیٹ گورو اگروال نے سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ کے جسٹس کرشنا مراری اور جسٹس احسان الدین امان اللہ کو بتایا کہ نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف داخل اپیل 2008 سے التواء کا شکار ہے اور اس پر کب حتمی بحث ہوگی کسی کو پتہ نہیں، گورو اگروال نے عدالت کو بتایا کہ تعزیزات ہند کی دفعات 121/120 کے تحت عرض گذار کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے جبکہ تعزیزات ہند کی دفعات 121/120کے اطلاق کے لیئے ضروری اجاز ت نامہ یعنی کے سینکش آرڈر حاصل نہیں کیا گیا اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے عمر قید کی سزا دی جو قانوناً غلط ہے۔ایڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو مزید بتایا کہ عرض گذار پر دہشت گردانہ معاملات میں جن قوانین کا اطلاق کیا جاتا ہے(ٹاڈا، پوٹا وغیرہ) ان کا اطلاق نہیں کیا گیا اس کے باوجود سیشن عدالت نے عرض گذار کو عمر قید کی سزا دی ہے جس پر نا تو ہائی کورٹ نظر ثانی کررہی ہے اور نہ ہی اسے ضمانت پر رہا کررہی ہے۔

ایڈوکیٹ گورو اگروال نے عدالت کو مزید بتایا کہ اپیل پر کئی مرتبہ سماعت شروع ہوئی لیکن ججوں کی تبدیلی کی وجہ سے کبھی بھی سماعت مکمل نہیں ہوسکی اور سماعت نہ ہونے کے لیئے عرض گذار ذمہ دار نہیں ہے بلکہ استغاثہ اپیل پر سماعت کرانے میں خاص دلچسپی نہیں دکھا رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ عرض گذار تا عمر میں جیل میں رہے۔یہ قیدیوں کے حقوق اور حقوق انسانی کی حق تلفی ہے، مقدمہ کی تیز سماعت ہر شہری کا حق ہے لیکن اس حق سے عرض گذار کو محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اسی درمیان اتر پردیش حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا گریما پرساد نے عدالت کو بتایا کہ عرض گذار کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور اس کے تعلقات بنگلہ دیشی وپاکستانی دہشت گردوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ٹرائل کورٹ نے عمر قید کی سزا دی تھی لہذا عرض گذار کو اگر ضمانت پر رہا کیا گیا تو وہ ملک سے فرار ہوسکتا ہے۔

ایڈوکیٹ گریما پرساد نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ ہائی کورٹ میں بحث کرنے کے لیئے تیار ہے۔فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد دو رکنی بینچ نے لکھنؤ ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ وہ عرض گذار اور دیگر ملزمین کی اپیلوں پر چھ ہفتوں کے اندر سماعت مکمل کرے اور اگر چھ ہفتوں کے اندر سماعت مکمل نہیں ہوئی تو عرض گذار دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوسکتا ہے۔دوران سماعت عدالت نے زبانی تبصرہ بھی کیا کہ الہ آباد ہائی کورٹ اور لکھنؤ ہائی کورٹ میں مقدمات کئی کئی دہائیوں سے التوا ء کا شکار ہیں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود حالات میں تبدیلی ہوتے نظر نہیں آرہی ہے لیکن انہیں امید ہیکہ لکھنؤ ہائی کورٹ اس مقدمہ کی سماعت چھ ہفتوں کے اندر مکمل کرلے گی۔دوران سماعت سرپم کورٹ آف انڈیا میں ایڈوکیٹ گورو اگروال کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر موجود تھے۔