سعودی عرب میں پھنسی امریکی ماں: ’لوگوں نے خبردار کیا تھا کہ اس ملک مت جانا‘

1,106

امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والی متعدد خواتین، جنھوں نے سعودی شہریوں سے شادی کی تھی، اب اپنے بچے حاصل کرنے اور ان کو ملک سے نکالنے کی جنگ لڑ رہی ہیں تاہم اس مہم میں شامل ایک فرد کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثرخواتین کی حکومتیں ان کی مدد نہیں کر رہیں۔امریکی شہری کارلی مورس جب پانچ سالہ بیٹی تالا کے ساتھ سعودی عرب پہنچیں تو سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کے سعودی والد سے اس وقت شادی کی تھی جب وہ امریکہ میں سات سالہ سکالر شپ کی وجہ سے موجود تھے تاہم بعد میں ان کی طلاق ہو گئی۔

اب ان کے سابق شوہر نے ان کو سعودی عرب کا دورہ کرنے پر آمادہ کیا تھا اور ان کے لیے تیس دن کے ویزا کا بندوبست کیا تھا تاکہ بچی کے دادا دادی اس سے پہلی بار مل سکیں۔کارلی ایک طرح سے چھٹیاں منانے آئی تھیں تاہم ان کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب ان کے سابق شوہر کی جانب سے بک کرائے جانے والے ہوٹل کے کمرے میں پہنچنے پر ان کو علم ہوا کہ وہاں کوئی کھڑکی نہیں اور انٹرنیٹ بھی میسر نہیں۔ ان کے موبائل فون کے سگنل بھی کام نہیں کر رہے تھے لیکن یہ ان کی پریشانیوں کی ابتدا تھی۔ ’ایک ہفتے بعد اس نے یہ کہہ کر میرا پاسپورٹ اور پیدائشی سرٹیفیکیٹ مانگا کہ وہ تالا کے لیے ملک سے اخراج کا پرمٹ بنوا سکے لیکن دراصل اس نے تالا کی سعودی شہریت بنوا لی۔ ‘سعودی عرب میں دہری شہریت کو تسلیم نہیں کیا جاتا چنانچہ اب سے تالا، جو امریکہ میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی، قانونی طور پر سعودی شہری بن چکی تھی۔ملک کے قوانین کی وجہ سے اب وہ اس وقت تک بیرون ملک نہیں جا سکتی تھی جب تک اس کے والد اجازت نہ دیں۔کارلی کا کہنا ہے کہ ان کے سابق شوہر روزانہ تالا کو لے جاتے اور شام سے پہلے واپس نہیں لاتے تھے۔ اپنے کمرے میں تنہا وہ کھانے کے لیے ان ڈبوں پر گزارا کرتیں جو ان کے سابق شوہر چھوڑ جاتے تھے۔

تقریباً دو سال تک وہ اپیل کرتی رہیں کہ ان کی بیٹی کو واپس جانے دیں۔ اس کے بعد انھوں نے امریکی کانگریس کے اراکین کو خطوط لکھنا شروع کر دیے۔ انھوں نے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے ان کو مدد ملنے کی امید تھی لیکن ان کی کوششوں سے ان کے سابق شوہر طیش میں آ گئے۔’جب اس کو معلوم ہوا کہ میں سعودی عرب سے باہر مدد کے لیے رابطے کر رہی ہوں تو اس نے میری بیٹی کو دو ماہ کے لیے اغوا کر لیا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ گھر چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ اس دوران اس نے تالا کی کسٹڈی کی درخواست دے دی۔ ‘اس درخواست میں ان کے سابق شوہر نے تالا کو اغوا کرنے کی تردید کی۔ادھر امریکی سیاست دانوں سے مثبت جواب نہ ملنے کے بعد کارلی نے وائٹ ہاوس کو خط لکھ دیا۔ ان کو کوئی جواب نہیں ملا لیکن صدر جو بائیڈن کے دورہ ریاض سے ان کو امید ضرور ملی تاہم یہ قلیل مدتی ثابت ہوئی۔امریکہ میں کارلی کی والدہ ڈینیس وائٹ پریشان تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ سعودی عرب کی معاشی اور سیاسی اہمیت کی وجہ سے امریکی سفارت کار مدد کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی عرب دنیا میں تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے جس کی وجہ سے حالیہ تونائی بحران میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔کیلیفورنیا سے بات کرتےہوئے ڈینیس وائٹ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پوتی کی تعلیم کے بارے میں کافی پریشان ہیں کیوںکہ ان کو بتایا گیا ہے کہ تین سال کے دوران وہ ایک بار بھی سکول نہیں گئی۔کارلی نے تالا پر ایک دور دراز ملک میں ایسی صورتحال کی وجہ سے ممکنہ نفسیاتی اثرات پر بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔امریکہ ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق کارلی جیسی پچاس دیگر امریکی خواتین بھی ہیں جنھوں نے سعودی شہریوں سے شادی کی لیکن اب اپنے بچوں کو حاصل کرنے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ان کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ اور مغربی ممالک کی کئی اور خواتین بھی اسی مسئلے کا شکار ہیں۔فاؤنڈیشن کی بیتھنی الحیدری نے اپنی بیٹی کو سعودی عرب سے باہر نکالنے کے لیے دو سال تک اخراج کے پرمٹ کی کوشش کی۔

ان کا کہنا ہے کہ اب تک کسی کو بھی کامیابی نہیں ملی۔ ان کے مطابق زیادہ تر کو ان کی حکومتوں کی طرف سے مطلوبہ مدد نہیں ملی۔’ایک تاثر ہے، امریکی حکومت میں بھی کہ ’آپ نے اپنے ساتھ یہ خود کیا ہے، آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا۔‘ تو ہمیں لگتا ہے کہ ایسے رویے کی وجہ سے جیسے ہم ایک دیوار سے ٹکرا رہے ہیں۔ ‘ریاض میں امریکی سفارتخانے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکی شہریوں کی فلاح و بہبود محکمہ خارجہ کے لیے نہایت اہم ہے اور سفارتخانہ کارلی اور سعودی حکومت سے رابطے میں ہے۔ ‘ایک طویل قانونی جنگ کے بعد کارلی کو تالا کی کسٹڈی سونپ دی گئی لیکن ان کو تاکید کی گئی کہ وہ اس سعودی شہر سے نہیں نکل سکتیں جہاں وہ موجود ہیں، ملک سے جانا تو دور کی بات ہے۔پیسوں کے بغیر ان کا کہنا ہے کہ وہ کمرے کی چار دیواری میں قیدی بن کر رہ گئی ہیں۔

’اس وقت مجھے باہر نکلے ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ میں روز اسی ہوٹل میں بیٹھی رہتی تھی۔ کسی ایک شخص نے بھی میرا چہرہ نہیں دیکھا۔ کسی نے میرا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔‘اس معاملے پر بات کرنے کے بعد سے کارلی پر سعودی حکام نے امن عامہ میں نقص ڈالنے کا الزام لگایا ہے اور سزا کے طور پر قید تجویز کی ہے۔ان کو ایک اور پریشانی کا بھی سامنا ہے۔ اپنے شوہر سے ملنے سے پہلے ہی انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے مذہبی خیالات میں کبھی بھی کمی نہیں آئی۔تاہم اپنی بیٹی کی کسٹڈی جیت جانے کے چند ہی دن بعد ان کے سابق شوہر نے ان کے خلاف اسلام چھوڑ دینے اور سعودی عرب سمیت مسلمانوں کی توہین کرنے کا الزام عائد کر دیا۔

بیٹی کو واپس لانا تو دور کی بات، اس مقدمے میں ان کو موت کی سزا ہو سکتی ہے تاہم وہ خود کو ہی مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔’مجھے خبردار کیا گیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے کہا اس ملک مت جانا۔ اگر تم وہاں گئی تو تمہاری بیٹی کبھی نہیں ملے گی اور میں نے ان پر دھِیان نہیں دیا۔ اب تین سال بعد میں اس صورتحال میں پھنسی ہوئی ہوں۔‘سعودی حکام اور کارلی کے سابق شوہر سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم اب تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔