سردار پٹیل کا مجسمہ: کیا وہ آج خود اس مجسمے کو دیکھ کر خوش ہوتے؟
سہیل حلیم بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
وزیراعظم نریندر مودی نے جب یہ اعلان کیا تھا کہ انڈیا میں دنیا کا سب سے دراز قامت مجسمہ بنایا جائے گا تو مجھے لگا تھا کہ اب انڈیا کے خلائی پروگرام کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
اس وقت میں نے لکھا تھا کہ جو لوگ ‘مرد آہن’ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے دیو قامت مجسمے کو پیسے کی بربادی سمجھ رہے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں یہ مجسمہ ختم ہو گا وہاں سے مریخ کا راستہ بس پیدل ہی طے کیا جا سکے گا۔ آپ لفٹ سے سیکنڈوں میں مجسمے کی اوپری گیلری تک جائیں گے اور وہاں سے بس پلک جھپکتے ہی مریخ پر پہنچ سکیں گے، بشرطیکہ آپ جانا چاہتے ہوں۔
کوئی زور زبردستی نہیں ہو گی۔ مجسمہ بنانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے آپ سے بھلے ہی نہ پوچھا گیا ہو، لیکن یہ جمہوری ملک ہے، جسے مریخ جانا ہوگا وہ جائے گا، باقی لوگ انڈیا واپس آ سکیں گے۔

بیچ میں ہی رکنا ہو تو پہلی دوسری منزل کےقریب چاند پڑے گا، وہاں بھی اتر سکتے ہیں۔ لیکن مریخ یا چاند پر جانے کی اجازت کون دے گا؟ ایسا تو نہیں کہ آپ صاف آب و ہوا اور بہتر زندگی کی تلاش میں وہاں پہنچ جائیں اور وہاں سے آپ کا بوریا بستر باندھ دیا جائے جیسا کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
خیر، دستاویزات پوری رکھنا آپ کی اپنی ذمہ داری ہو گی۔
لوگ نہ سنتے ہیں نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، بس انھوں نے تو یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ مجسمہ بنانے پر جو تین ساڑھے تین ہزار کروڑ روپے (43 کروڑ امریکی ڈالر) خرچ ہوئے ہیں، ان سے کتنی اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیاں بنائی جا سکتی تھیں، کتنے کسانوں کے قرضے معاف کیے جا سکتے تھے، کتنے ہسپتال بنائے جا سکتے تھے۔۔۔ انڈیا جیسے غریب ملک میں یہ فہرست بہت لمبی ہے۔
لیکن جب آپ کو دنیا میں ملک کا نام روشن کرنا ہو تو پھر کوئی قیمت کم نہیں ہوتی۔ مخالفت کرنے والے تو بلٹ ٹرین کو بھی بیش قیمت وسائل کا زیاں ہی بتا رہے ہیں۔ لیکن لوگ جب ٹرین میں بیٹھنے سے پہلے ہی اپنی منزل پر اتریں گے تو انھیں احساس ہو گا کہ یہ کتنے فائدے کی چیز ہے۔ اور اگر اترنےمیں دیر ہو گئی تو بھی کوئی فکر کی بات نہیں ہے، ٹرین اتنی جلدی واپس بھی پہنچ جائے گی کہ جو لوگ آپ کو چھوڑنے آئے ہوں گے وہ پلیٹ فارم پر ہی مل جائیں گے۔
بہر حال ٹرین اور ترقی کی رفتار سب کے لیے یکساں نہیں ہے۔
لیکن آپ کس کس کی زبان پکڑیں گے؟ کیا جب وزیر اعظم نریندر مودی نے جاپان میں مقیم ہندوستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سردار پٹیل کا یہ ‘مجسمۂ اتحاد’ امریکہ کی ‘سٹیچو آف لبرٹی’ سے دگنا اونچا ہے، تو کیا آپ کا سینہ فخر سے پھول کر 52 انچ کا نہیں ہوا ہو گا؟ (56 کا خواب نہ دیکھیں، وہ پیمائش صرف وزیراعظم کے لیے ہے۔)

اگر نہیں ہوا تو آپ کو شرم آنی چاہیے کیونکہ امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور اور دولت مند ملک ہے اور وہاں آزادی کی علامت بن جانے والا سٹیچو آف لبرٹی مجسمۂ اتحاد کے سامنے بونی نظر آئے گا۔
اور اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی آیا ہو کہ کیا ہندوستانیوں کی آمدنی بھی امریکیوں سے دگنی، برابر، نصف یا چوتھائی ہو جائے گی تو آپ کو دو باتیں ذہن میں رکھنی چاہییں: پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا اور اگر آپ کے لیے ہے تو آپ کو اپنی سوچ بدلنی چاہیے۔

امریکہ میں لوگ گجرات کی طرف دیکھیں گے اور کہیں گے: دیکھو سردار پٹیل کا مجسمہ کتنا صاف نظر آ رہا ہے۔ اگر ہمارے یہاں بھی کوئی بڑا رہنما ہوتا تو ہم بھی ایسا ہی مجسمہ بناتے۔۔۔ ہمارے یہاں ٹرمپ ٹاور تو ہے لیکن اس میں وہ بات کہاں، ٹرمپ ٹاور کی اونچائی 202 میٹر تو ہے لیکن افسوس یہ مجسمہ نہیں ہے۔
سردار ولبھ بھائی پٹیل انڈیا کے پہلے وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعظم تھے اور ملک کی 562 چھوٹی بڑی شاہی ریاستوں یا رجواڑوں کو یونین آف انڈیا میں شامل کرنا ان کی سب سے بڑی کامیابی مانی جاتی ہے۔ وہ زندگی بھر کانگریس کے رہنما رہے لیکن بی جے پی انھیں اپنا ‘مارگ درشک’ (راہ نما) مانتی ہے، اور پارٹی کا یہ دیرینہ موقف رہا ہے کہ اگر نہرو کے بجائے ‘قوم پرست’ سردار پٹیل کو پہلا وزیراعظم بنایا گیا ہوتا تو۔۔۔ لیکن یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق مسٹر مودی کو لگتا ہے کہ ‘مرد آہن’ سردار پٹیل قوم پرستی کے اس ‘سانچے’ میں فٹ ہوتے ہیں جس پر وہ خود کو ڈھالنا چاہتے ہیں۔ لیکن مخالفین کہتے ہیں کہ دونوں کے سیاسی نظریات میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔

سردار پٹیل کے مجسمے کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی تھی، اس پر لکھا ہے کہ ‘سردار پٹیل نے کسانوں کی بہبود کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔’
تو سرادار پٹیل اگر زندہ ہوتے تو اس مجسمے کے بارے میں کیا سوچتے؟ زیادہ امکان یہ ہےکہ اسے پسند نہ کرتے، اس دور کے رہنما ‘مورتی، مجسمہ، میموریل’ کی سیاست سے اکثر دور ہی رہتے تھے۔ لیکن مجسمہ تو بن گیا ہے، اگر انھیں اوپر سے جاکر نظارہ دیکھنے پر مائل کر لیا جاتا تو انھیں کیا نظر آتا؟
جہاں یہ مجسمہ تعمیر کیا گیا ہے، وہاں کے بہت سے مقامی لوگ بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن اونچائی اتنی زیادہ ہے کہ نعروں کی آواز اوپر تک نہیں پہنچ پائے گی۔ اوپر کی ‘ویوئنگ گیلری’ سے ظاہر ہے کہ پورا ملک نظر آئے گا اور اسے درپیش کچھ مسائل بھی۔
مثال کےطور پر زراعت کو درپیش بحران اور کسانوں کی خود کشی کے واقعات۔ تخمینوں کے مطابق مالی دشواریوں میں گھر کر ملک میں ہر سال 12ہزار سے زیادہ کسان خود کشی کرتے ہیں۔
سردار پٹیل کو شاید آلودگی کا وہ غلاف بھی نظر آتا جس نے تقریباً پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسی ہفتے عالمی ادارۂ صحت نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آلودگی کی وجہ سے سنہ 2016 میں ایک لاکھ سے زیادہ ہندوستانی بچوں کی موت ہوئی۔
صرف آلودگی کی وجہ سے؟ یا انھیں مناسب خوراک بھی نہیں مل رہی تھی؟ یا وقت پر علاج نہیں ہو سکا؟ یا وہ ان چار میں سے ایک ہندوستانیوں میں شامل تھے جو اب بھی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتے ہیں؟
بحث مجسمے سے نیچے اتر کر کی جا سکتی ہے، اوپر کرنے کے لیے اور بہت کچھ ہے۔

تو آپ کا یہ سوال باقی رہا کہ کیا واقعی سردار پٹیل یا کسی بھی رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے؟ یا ان کے نام پر ہر ریاست میں ایک شاندار ہسپتال کھول دیا جاتا یا ایسی یونیورسٹیاں قائم کی جاتیں جنھیں دیکھ کر دنیا میں لوگ ������ہتے کہ پڑھنا ہے تو سردار پٹیل یونیورسٹی کا رخ کرو۔
خیر، انڈیا میں نہ یہ پہلا مجسمہ بنا ہے اور نہ آخری۔ عہد وسطیٰ کے بادشاہ شیواجی مہاراج کا ایک عظیم الشان مجسمہ ممبئی کے ساحل کے قریب سمندر کے بیچ بنایا جانا ہے۔ اس پر بھی تقریباً تین ہزار کروڑ روپے لاگت آئے گی اور اس کی اونچائی مجسمہ اتحاد سے بھی زیادہ ہو گی!
مجسمہ اتحاد کی اونچائی 182 میٹر ہے، شواجی مہاراج کے مجسمے کی تلوار اس بھی 20 میٹر اوپر ہو گی! اس کی چمک بھی دور سے ہی نظر آئے گی۔ اس کے بعد کیا سردار پٹیل کا مجسمہ اونچائی کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر پہنچ جائے گا؟
لیکن آپ کی شکایت جو بھی ہو، آپ کا دل کسانوں کے لیے دھڑکتا ہو یا معصوم بچوں کی زندگیوں کے لیے، اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انڈیا کو اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے۔
مذہبی بھی معاشرتی بھی، اگر یہ اتحاد اس مجسمے سے آ سکتا ہے تو اس کی افادیت اس پر آنے والے خرچ سے کہیں زیادہ ثابت ہو گی۔
اگر نہیں، تو لوگ تو وہ سوال پوچھیں گے ہی جو سب کے دلوں میں تو ہے بس زبان پر نہیں آ رہا: ‘اتنے اونچے مجسمے کے ساتھ سیلفی کیسے لیں گے بھائی؟’