روش کا بلاگ: 2019 کا چناؤ » پیسہ بہے گا پانی کی طرح اور جھوٹ امرت کی طرح…

0 18

عام آنتخابات کا اعلان ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جو مرحلے مقرر کئے ہیں اسے لیکر سوال اٹھ رہے ہیں۔ 2014 میں بہار میں چھہ مرحلوں میں چناؤ ہوئے تھے۔ 2019 میں 7 مرحلوں میں ہو نگے۔ ایک پرامن ریاست میں سات مرحلوں میں چناؤ کا کیا مطلب ہے۔ 2014 میں جھنجھارپر، مدھبنی، دربھنگہ کو مدھیہ پورہ، سمستی پر، بیگسرائے اور کھگڑیا کے ساتھ چوتھے مرحلے میں رکھا گیا تھا۔ جھنجھارپر، مدھبنی اور دربھنگہ ایک دوسرے سے متصل ہے۔ اس بار ان تینوں پڑوسی اضلاع کو الگ الگ مرحلوں میں رکھا گیا ہے۔ جھنجھارپر میں رائے دہی تیسرے مرحلے میں یعنی 23 اپریل کو ہوگی. دربھنگہ میں رائے دہی 29 اپریل کو ہے۔ مدھبنی میں پانچویں مرحلے میں 6 مئی کو ہوگی۔ الیکشن کمیشن ہی بتا سکتا ہے که تینوں پڑوسی اضلاع کا پروگرام الگ الگ مرحلوں میں کیوں رکھا گیا ہے۔ کسی کی سہولیت کا دھیان رکھ کر کیا گیا ہے یا پھر کمیشن نے اپنی سہولیت دیکھی ہے۔

اسی طرح مہاراشٹر میں 4 مرحلوں میں چناؤ کو لیکر سوال اٹھ رہے ہیں۔ یوگیندر یادو نے سوال کیا ہے که 2014 میں اڑیسہ میں دو چرنوں میں چناؤ ہوئے تھے۔ اس بار چار چرنوں میں ہورہے ہیں.مغربی بنگال میں 5 کی جگہ 7 مرحلوں میں چناؤ ہوئے ہیں۔ یہی نہیں اس بار چناوں کے اعلان میں بھی 5 دنوں کی دیری ہوئی ہے۔ 2014 میں 5 مارچ کو چناوں کا اعلان ہو گیا تھا۔ ان تاریخوں کے ذریعے چناؤ انتظامیہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے که یہ سوال پوچھے جائیں۔ یہ وہی چناؤ آیوگ ہے جس نے پچھلے ودھان سبھا میں پریس کانفرنس کے لئے پیغام بھجوا کر واپس لے لیا تھا۔ پتہ چلا که اس درمیان وزیراعظم ریلی کرنے چلے گئے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں که اس بار 100 سبھاؤں کو ختم کر انکے دہلی لوٹ آنے کا انتظار ہو رہا تھا!

جو بھی ہے، اب آپکے پاس عوام بننے کا موقع آیا ہے۔ عوام کی طرح سوچیے۔ نیوز چینلوں نے سروے میں بتانا شروع کر دیا ہے که نوکری موضوع ہے۔ خود نوکری کے سوال پر ان چینلوں نے کچھ نہیں کیا۔ پھر بھی آپ ان چینلوں سے رابطہ کریں که اگر نوکری موضوع ہے تو اسکے حل کیلئے سوالوں کو بھی دکھانا شروع کر دیجیے۔ مجھے پورا یقین ہے انہیں نوکری کے سوال کا چہرہ نہیں چاہئیے۔ تعداد چاہئیے۔ تاکہ وہ بتا سکے که اتنے فیصدی لوگ نوکری کو موضوع مانتے ہیں اور اتنے فیصدی نوکری کو موضوع نہیں مانتے ہیں۔

بہار میں ایس ایس سی اسٹینو گرافر کیلئے 2017 میں امتحانات منعقد ہوئے تھے۔ 28 نومبر 2018 کو 2400 طلباء کامیاب ہوئے تھے۔ 28 دسمبر کو فائنل میرٹ نکالنے کی بات تھی مگر حکم آیا که کاپی ٹھیک سے چیک نہیں ہوئی ہے۔ اسکا رزلٹ دوبارہ نہیں آ سکا۔ 3 مہینہ ہو گیے ہیں ۔ مگدھ یونیورسٹی کے ہزاروں طلباء کے دل دھڑک رہے ہیں۔ اگر 31 مارچ تک رزلٹ نہیں نکلا تو وہ ریلوے کی نئی نوکریوں کے لئے فارم نہیں بھر پائینگے۔

پچھلے سال آسام میں راجیہ سرکار کے پنچائتی وبھاگ نے 945 ویکینسی نکالی۔ 20 مئی 2018 کو امتحان ہوا۔ یہ امتحان کئی طرح کی جانچ اور مقدموں میں پھنس گئی۔ سی آئی ڈی جانچ ہوئی اور گڑبڑیاں سامنے آئیں۔ اسکے بعد بھی سرکار نے 5 مارچ 2019 کو رزلٹ نکال دیا۔ چھاتروں نے سینکڑوں میل بھیج کر آروپ لگائے ہیں که پیسے دیکر سیٹیں بیچی گئی ہیں۔ سیاسی کنیکشن کے لوگوں کو نوکریاں ملی ہیں۔

اب یہ چینل ان امتحانات کو لیکر سوال تو کرینگے نہیں۔ یہ کانگریس سرکاروں میں بھی ہے اور بی جے پی سرکاروں میں بھی۔ روزگار کے مدعے کو سروے کے فیصد سے غائب کر دیا گیا ہے۔ اب نوجوانوں پر منحصر ہے که وہ ان چینلوں کی بحث سے اپنے لئے کیا پاتے ہیں۔ انہیں اس مشکل سوال سے گزرنا ہی ہوگا۔ اسلئے یہ چناؤ نوجوانوں کا ہے۔ وہ میڈیا اور نیتا کے گڑھے ہوئے جھوٹ سے ہار جا ئینگے یا دونوں کو ہرا دینگے۔

اگر نوکری مدعا ہے تو یہ چناؤ نوجوانوں کا امتحان ہے۔ بھارت کی راجنیتی میں اگر نوجوانوں کی ذرا بھی اہمیت بچی ہوگی تو نوکری کا سوال بڑا ہوکر ابھریگا۔ ورنہ یہ سوال دم توڑ دیگا۔ میں ان ہارے ہوئے نوجوانوں سے کیا امید کروں، بس یہی دعا کرتا ہوں که یہ میڈیا کی بنائی دھارنا سے اپنی ہار بچا لیں اور اپنے مدعے کو بچا لیں۔

2019 کے چناؤ میں جھوٹ سے مقابلہ ہے۔ یہ چناؤ راہل بنام مودی کا نہیں ہے۔ یہ چناؤ عوام کے سوالوں کا ہے۔ جھوٹ سے ان سوالوں کے مقابلے کا ہے۔ کیا عوام اپنے سوالوں سے جھوٹ کو ہرا دیگی یا اس جھوٹ سے ہار جائیگی؟ اسکے علاوہ یہ بھارت کی سیاست کا سب سے مہنگا چناؤ ہوگا۔ پیسہ پانی کی طرح بہیگا اور جھوٹ امرت کی طرح.

رویش کمار کے فیس بک پیج سے