دُبئی میں مجبور پاکستانی خاندان کی مد د کرنے والے بھارتی بزنس مین کے بارے میں مزید حقائق سامنے آ گئے

دُبئی میں مقیم بھارتی بزنس مین جوگندر سنگھ سالاریہ پہلے بھی اپنی نیکی اور رفاہی کاموں کی وجہ سے مشہور تھے تاہم ایک انتہائی مشکلات میں گھرے پاکستانی خاندان کی مدد کرنے کے بعد اب پاکستانی میڈیا میں بھی ان کا خاصا چرچا ہو رہا ہے .

جوگندر سنگھ کے بارے میں مزید ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک غیر متعصب اور انسانیت پرست شخص ہیں جنہوں نے ماضی میں بھی پریشان حال پاکستانیوں کا بھرپور ساتھ دیا ہے. جوگندر سنگھ پہلے بھی درجنوں پاکستانیوں کے ساتھ بھرپور تعاون کر چکے ہیں. یہاں تک کہ انہوں نے 2019ء میں پاکستان کے ایک انتہائی غربت مارے گاؤں کے باسیوں پر بڑی نیکی کرتے ہوئے ان کے لیے 60 ہینڈ پمپ لگوائے تھے. جس کی وجہ سے پورا گاؤں ان کے گُن گاتا ہے.

گزشتہ سال بھی جوگندر سنگھ نے سات ممالک کے ایسے قیدیوں کو رہائی کے بعد اپنی جیب سے وطن واپسی کے لیے ٹکٹس خرید کر دیئے تھے، جن کی مالی حالت بہت خراب تھی. ان قیدیوں میں درجنوں پاکستانی بھی شامل تھے. PCT کے نام سے فلاحی ادارہ چلانے والے جوگندر سنگھ نے کئی بار پاکستانی تارکین کی مالی امداد کی اور انہیں درپیش مسائل کے حل کے لیے ذاتی سطح پر کوششیں کیں. یاد رہے کہ بھارتی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے جوگندر سنگھ سالاریہ نے مہوش نامی پاکستان خاتون کے رابطہ کرنے پر اس کے خاوند کو جیل سے آزاد کروانے کے لیے تمام کاغذی کارروائی مکمل کروائی جو بینک کا قرضہ ادا نہ کرنے پر جیل کی سزا بھگت رہا تھا.

جوگندر سنگھ نے تمام جرمانے اپنی جیب سے ادا کیے. ان کی رہائش گاہ کا کئی ماہ کا کرایہ بھی ادا کیا اور پھر مہوش ، اس کے خاوند اور تین بچوں کو واپس پاکستان بھجوانے کے لیے ٹکٹس کا خرچہ بھی خود ہی اُٹھایا. خلیج ٹائمز سے بات کرتے ہوئے سالاریہ نے نیکی اور فلاحی کاموں کے معاملے میں دُبئی کے فرمانروا شیخ محمد بن راشد المکتوم کو اپنا رول ماڈل قرار دیا. سالاریہ کا کہنا تھا ”اس ملک میں تمام افراد سے برابری کا سلوک کیا جاتا ہے ہمیں ہندو، مسلم یا عیسائی ہونے سے پہلے ایک اچھا انسان بننا ہے. میں نے کبھی کسی کی مدد کرتے وقت ملک، مذہب یا ذات کو سامنے رکھ کر امتیازی سلوک نہیں کیا. اس کورونا وبا نے ہمیں بتایا ہے کہ ایک وائرس کیسے دُنیا کا سارا نظام درہم برہم کر سکتا ہے. ہم سب کو امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنا ہو گا، نفرت کی بجائے محبت کا پیغام پھیلانے کی ضرورت ہے. مجھے بہت زیادہ خوشی ہے کہ مہوش اور اس کے گھر والوں کی مدد کرنے کا موقع میسر آیا ہے. “

Leave a comment