دامن جھٹک کے منزل ِ غم سے گزرگئے

0 36

محمدتقی (ناندیڑ)9325610858

آج سے دو سال قبل ساری دنیا پرا س وقت سکتہ طاری ہواتھا جب ایک بے حد خطرناک نئی بیماری کے وائرس کوورنا (کوویڈ19) نے اچانک انسانوں پرشب خون مارا تھا ۔ یہ موسم بہار کا زمانہ تھا ۔یوروپ ‘شمالی امریکہ اور یوریشیاءمیں مارچ آخر میں موسم گُل کی شروعات ہوجاتی ہے ۔ اس موسم میں درخت سبزرنگ کی چادر اُوڑھ لیتے ہیں ۔ کلیاں لہراکر پھولوں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں ۔رنگ برنگے پھول فضاؤں میں خوشبوئیں بکھرتے ہیں ۔ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہواؤں سے درخت بل کھاکر جھومنے لگتے ہیں ۔مگرسال 2020ء کا موسم بہار اپنے ساتھ پت چھڑ کی سوغات بھی لے آیا تھا ۔ یہ پت چھڑانسانوں میں ہورہی تھی ۔ ساری دنیا میں روزانہ ہزاروںا نسان لقمہ اجل بن رہے تھے ۔ہر سو ہاہاکار مچاہواتھا ۔ ہرشخص اپنی جان کی فکر کررہاتھا اور اپنے اپنے خداسے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہاتھا ۔ کوروناوباءہر شخص کے سر پر موت بن کر منڈلارہی تھی ۔ افسوس کہ کوئی دوا کوئی دعا کارگرثابت نہیں ہورہی تھی ۔ کورونا وائرس نے سب سے پہلے چین کے شہریوہان میں دستک دی تھی اسکے بعد یہ وائرس تیزی سے براعظم شمالی امریکہ ‘یوروپ کے تمام ملکوں کواپنی لپیٹ میں لے چکاتھا ۔

کیسی دستک تھی کہ دروازے مقفل ہوگئے
اور اس کے ساتھ روئدادِ قفس پوری ہوئی
حالانکہ مغربی ممالک طبی سائنس میں بے حد ترقی یافتہ تسلیم کئے جاتے ہیں ۔مگراس جان لیوا مرض کی دوا ایجاد کرنے سے قاصرتھے ۔کوئی دوا داروکے ایجاد نہ ہونے سے اُس وقت کے صدرامریکہ (یوایس اے) مسٹرڈونالڈ ٹرمپ کوپریشانی اور دیوانگی کے عالم میں گھبراکر یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑاتھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم عبادت خانوں میں خداےے برتر کے سامنے ماتھا ٹیک کراپنی جان کی امان کی دعائیں مانگیں ۔ اسی طرح کااعلان یوروپ اوردیگر ممالک کے سسربراہان بھی کررہے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انسان ہارگیاتھا اورکورونا وائرس جیت کا جشن منارہاتھا ۔کورونا کا موت کارقص پوری شدت سے جاری تھا ۔ امریکہ میں روزانہ ہزاروں انسان موت کی آغوش میںچلے جارہے تھے ۔ لاشوں کے انبار لگ رہے تھے۔ بڑی بڑی قبریں کھودی جارہی تھیں ایک ایک قبر میںبیسوں لاشوں کوکرین کے ذریعہ اتارا جارہاتھا اورمشینوں سے ہی مٹی ڈال کردفن کیاجارہاتھا ۔ یہ منظر بڑا دل دہلانے والاتھا ۔عقل محوے تماشہ تھی۔ چار سو خوف ‘ہراس اور دہشت کاماحول تھا ۔ ہردرودیوار پراُداسی بال کھولے رقص کناں تھی ۔سبھی ملکوں میں لاک ڈاون اورکرفیو لگادیاگیا ۔فی الحال مرض سے حفاظت کا بس یہی ایک راستہ کھُلاتھا ۔اِدھر بھارت میں لاک ڈاو ن اورکرفیو کا بگل بجتے ہی دوکانوں پرکھٹاکھٹ تالے پڑنے لگے تھے۔سڑکین سنسان ہوگئی تھیں ۔ صرف پولس کی گاڑیاں سیٹیاں اور ہارن بجاتی نظر آرہی تھیں ۔ ہر شخص گھر میں خود سے قید ہوچکاتھا ۔ ہر فرد حوا س باختہ تھا ۔ ہرفرداپنے مذہبی عقیدے کے مطابق وباءسے نجات کی دعا مانگ رہاتھا ۔ مسجدوں ‘ مندروں ‘گرجاگھروں اورگورودواروںمیںدعائیہ اجتماعات ہورہے تھے۔ ہرآنکھ اشکبار ‘ہردل مغموم و افسردہ تھا۔مرزاغالب کواپنی بیکسئی عشق پررونا آیاتھا لیکن یہاں توہر شخص زندگی کی بیکسی اور بے بسی پر آنسو بہارہاتھا ۔

آئے ہے بیکسئی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد؟
کوروناکے سیلابِ بلا نے جونہی بھارت کارُخ کیا ۔وزیراعظم مودی نے22مارچ 2020سے سارے ملک میںلاک ڈاون اورکرفیو نافذ کرنے کااچانک ااعلان کردیا ۔ بس کیاتھا دیکھتے ہی دیکھتے ریل گاڑیوں کے پہیئے اورموٹر گاڑیوں کے چکے جہاں تھے وہیں منجمد کردئےے گئے ۔ہوائی جہازوں کی اڑانیں معطل کردی گئیں ۔جوشخص جہاں تھا اُسے وہیں رُکنا پڑا ۔ غریب ‘محنت کش اورمزدور طبقہ پر لاک ڈاون کی سب سے زیادہ مارپڑی ۔جو مزدور اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور ملک کی متمول مالدار ریاستوںمیں روٹی روزی کمانے آئے تھے ان کے کمائی کے ذرائع بندہوچکے تھے۔وطن واپسی کی ساری امیدوں پرخاک پڑ گئی تھی ۔وطن جانے والی سبھی رہگزاروں پرکانٹے بچھادئےے گئے تھے۔محنت کش طبقہ پرکورونا وباءقیامت صغریٰ بن کرٹوٹی تھی ۔دیارِ غیر میں بھوکوں مرنے کے بجائے مزدوروں نے اپنے وطن کی طرف پیدل سفر شروع کردیاتھا ۔ راہوں میںبچھے کانٹوں کو ہٹاتے جاتے اوربے یار ومددگار چلے جاتے تھے ۔نہ کھانے کیلئے روٹی تھی اور نہ پینے کےلئے پانی ۔اپریل کامہینہ تھا کڑی دھوپ کاسفر در پیش تھا ۔اپنے دل برباد میں اپنے بال بچوں کی یادوں کا طوفان لئے چلتے رہے۔
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کاسفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
ان حالات میں ہزاروں مزدور سفر کی صعوبتیں برداشت نہیں کرسکے اورراستے میںہی دم توڑ دیاتھا۔اوردم کہاں توڑا جب کہ دوچار ہاتھ لبِ بام رہ ِ گیاتھا۔قسمت نے بڑا بُرا مذاق کیاتھا۔نہ تو خدا ہی ملا اورنہ وصال ِصنم۔
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جاکر کہاں کمند
دوچار ہاتھ جب کہ لب ِ بام رہ گیا
مودی جی کابغیرسونچے سمجھے ‘طوفانی ہواؤں کا رُخ دیکھے بغیر اچانک سارے ملک میں لاک ڈاون اور کرفیو نافذ کرنے کافیصلہ کتنا درست تھا یا غلط ؟ اس پر آج بھی لال نشان لگاہوا ہے ۔ لیکن ہمارے وزیراعظم اور اُن کی حکومت کویہ نہیں بھولنا چاہئے کہ فاضل مورخ ایک کونے میں بیٹھ کر کوروناوباءکے المناک دور کی روئدادِ غم کاغذ پر رقم کرتارہا ہے۔اس روئداد الم کابستہ جب کھُلے گاتو حکمرانوں کے چہروں پر پڑے نقاب ایک ایک کرکے اُٹھنے لگیںگے۔کوروناعلاج او ر ادویات کے نام پر کس نے کتنا کرپشن کیا ہے سب نظروں کے سامنے آجائے گا۔
داستانِ الم مختصر۔ آئے ! موسموں کی بات کریں ۔ بدلتے موسم میں فصلِ بہار کے مزے لوٹیں ۔لہراتے سبز پتوں کی تالیوں کی آواز سے لُطف اٹھائیں ۔ تازہ پھولوں کے شوخ رنگوں ‘ کھلتی کلیوں ‘بھینی خوشبوؤں ‘ٹھنڈی پُروائیوں ‘بادِ صبا کی صرصر اورنسیم سحر کے جھونکوں کی بات کریں ۔ چاند ‘تاروں ‘چاندنی راتوں کاذکر کریں ۔ ماہ کامل کی ٹھنڈی روشنی میںسحری کھائیں ۔ شام کے ڈوبتے سُرمئی سایوںں میں افطارکریں ۔ خوشیوں کے شادیانے بجائیں ۔ اہتمام جشنِ طلوعِ نیا سویرا کریں۔محبت ‘اخوت ‘بھائی چارہ کے ترانے گائیں ۔ اس لئے کہ موت کے بادل چھٹ چکے ہیں ۔زندگی کی ایک نئی صبح ‘سیاہ بادلوں کی اوٹ سے نکل آئی ہے ۔ آج سے دوسال قبل ماہ مئی میں رمضان آیاتھا۔مئی 2020 کازمانہ تھا سورج آسمان سے شعلے برسارہاتھا ۔کوروناوباءکے خوف سے لاک ڈاون اورکرفیو لگاہواتھا ۔بازار اُجڑ گیے تھے ۔ گلی‘کوچوں‘راستوں اور مکانات پرویرانی چھائی ہوئی تھی ۔ مسجدوں اوردیگر عبادت گاہوں پر پہرے لگادئےے گئے تھے۔ دروازوں پرتالے پڑے تھے۔ لوگ اپنے گھروں میں ہی نمازیں پڑھنے لگے تھے ۔ عید کی نماز بھی عیدگاہوں اورمساجد میں نہیں ہوئی تھی ۔ پھراپریل 2021ءمیںدوسرا رمضان آیاتھا ۔کورونا کی دوسری بھیانک لہرچل رہی تھی ۔ پھر فرمان جاری ہواتھا کہ تمام مذہبی عبادت گاہیںمقفل کردی جائیں۔ شہر کی مساجد کے دروازوں پرتالے لگادئےے گئے تھے ۔ دوسرے سال بھی عیدالفطر کی نماز عیدگاہوں اور مساجد میں نہیں پڑھی گئی تھیں۔ لیکن آج پورے دوسال بعد رحمتوں ‘ برکتوں اوررونقوں والا ماہ صیام آیا ہے ۔ کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ لوگ کھُلی تازہ فضاءمیںسانس لے رہے ہیں ۔ خشوع و خصوع عبادتیں کررہے ہیں۔بازاروں‘گلی کوچوں اور چوراہوں پررونقیں پھرسے لوٹ آئی ہیں ۔ یوں لگ رہاہے جیسے بہاروں کے قافلے لوٹ آئے ہیں ۔ میرے مولیٰ کا بڑا کرم ہے۔

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی‘بدل چلا دورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے ‘جو دن کڑاتھا گزرگیا وہ
لیکن خوشیوںں کے شادیانوں کی بھلی آوازوں کے بیچ غم واندوہ کی اتھاہ گہرائیوں میںڈوبی ہوئی غم گین موسیقی بھی باربار کانوں پر تھپیڑے مارے جارہی ہے ۔ یہ موسیقی اُن رفتگان کی یاد تازہ کررہی ہے جو کرونامرض کاشکار ہوکر ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے بچھڑ گئے ہیں۔ اور پیچھے یادوں کی خوبصورت کہکشاں چھوڑ گئے ہیں۔
آفات دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک آفت سماوی اوردوسری آفت سُلطانی ۔ خدائے عزو جل نے ہماری ڈوبتی کشتی کوکورونا طوفان سے سہی وسلامت نکال لایا ۔ورنہ طوفان کے تھپیڑوں سے غرقِ آب ہوسکتی تھی ۔لیکن اب بھارتی مسلمانوں پر سُلطانی آفت کا منحوس سایہ منڈلارہا ہے ۔ مرکزکی بھگوا حکومت مسلمانوں کے خلاف نت نئے قوانین لاگو کرکے انھیں پریشان کرنے اور اُن کی مذہبی شناخت کومٹانے پرتُلی ہوئی ہے ۔ کبھی شہریت کامتنازعہ قانونی وضع کرکے مسلمانوں کواُن کے اپنے ہی ملک میں پناہ گزیں بنانے کی سازشیں رچی جاتی ہیںتوکبھی مسلمانوں کے شرعی قوانین میںمداخلت کرکے انھیں ذہنی طور پر پریشان وہراساں کیاجاتا ہے ۔ تین طلاق کے خلاف نام نہاد قانون نافذ کردیاگیا ہے ۔ مسلم لڑکیوں اور خواتین کو حجاب پہننے سے بازر کھنے کےلئے سپریم کورٹ سے نیاآرڈر جاری کروایاگیا ہے۔ کچھ ریاستوں میںگوشت کی فروخت پرپابندیاں عائد کر دی گئیں ہیں۔ مسلمانوں کی بستیاں مسمار کی جارہی ہیں۔غریب مسلم پھیری والوںپرظلم وستم کرکے اُن کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے ۔ بھگواتنظیمیں نہتے بے قصور مسلمانوں پرجان لیوا حملے کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں ۔ان نامساعد حالات کے باوجود بھارت کا مسلمان اپنے دین وعقیدے پرقائم ہے ۔ اورمستقبل میں بھی قائم رہےگا۔بادِ مخالف اور ہرطوفان کا بہادری سے مقابلہ کرے گا۔