حکومتِ کی ہندوتوا کےفرسودہ طبقاتی نظام کو دوبارہ تھوپنے کی تیاری:پروفیسر تنویر احمد
قومی تعلیمی پالیسی کے تحت وحدتِ اسلامی ہند نے کیا تعلیمی سیمنار کا سنجیدہ انعقاد
اکولہ:(ذاکر نعمانی)آج تعلیم کا بڑا غلغلہ ہے ہر سمت تعلیم کا چرچا عام ہے۔ہر شخص اپنی اولاد کو بہتر تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتا ہے۔تاکہ وہ مُلک و ملّت کے لئے اپنی خدمات پیش کرسکے۔روشن مستقبل بناسکے۔لیکِن موجودہ حکومت اس سے علی الرغم تعلیم کو بھی زعفرانی رنگ دینے پر کوشاں ہے۔تاکہ ہندوتوا کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔اسی حوالے سے تعلیم سے وابستہ اسکول انتظامیہ و مرد و خواتین اساتذہ اکرام کی رہنمائی کے لئے تعلیمی کمیٹی، وحدتِ اسلامی ہند، مشرقی ریجن مہاراشٹر، اکولہ اکائی نے "قومی تعلیمی پالیسی 2020 مُختلف پہلو اور مستقبل” اس مرکزی عنوان کے تحت پُرمغز تعلیمی سیمنار کا انعقاد کیا۔
جس میں اکولہ ضلع و اطراف کے مرد و خواتین اساتذہ اکرام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔اس سیمنار میں جناب خان محمد اظہر حسین صاحب (صدر، اُردو ایجوکیشن سوسائٹی اکولہ)، جناب سیّد اسحاق راہی صاحب (سی ای او، شاہ بابو ایجوکیشن سوسائٹی پاتور)، جناب پرشانت گاونڈےصاحب (ٹرسٹی، جے آر ڈی ٹاٹا اسکول اینڈ ایجو لیب اکولہ)، ڈاکٹر تنویر احمد صاحب (پروفیسر ایم جی ایم یونیورسٹی اورنگ آباد)، جناب مُنیر دیشمکھ صاحب (ہیڈ اسکول ڈیولپمنٹ، پرل اکیڈمی اورنگ آباد) بطور خصوصی مقرر و اکوله ضلع کے مختلف اسکول انتظامیہ کے ذمّہ داران بطور مہمانِ خصوصی موجود رہے۔سیمنار کی شروعات حافظ عرفان صاحب کی تلاوتِ قرآن کریم سے ہوئی۔
تعلیمی سیمینار میں بحیثیت مہمان خصوصی جناب خان محمد اظہر حسین صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 درحقیقت ہر قوم کے غریب طبقے کے خلاف ہے۔ یہ پالیسی غریبوں کو حاشیے پر لاکر تعلیم سے محروم کردےگی۔موجودہ حکومت کا اقلیتی طلبہ کو دی جانے والی اسکالرشپ بند کرنااور اسکولوں کو گرانٹ نہ دینا دراصل تعلیمی اداروں کو اڈانی و امبانی جیسے سرمایہ داروں کو سونپنے کی جانب ایک قدم ہے۔
اس سیمینار میں خصوصی مقرر کے بطور جناب پرشانت گاونڈے نے نیپ 2020 کے متعلق چونکا دینے والے انکشافات سامنے لائے۔آپ نے کہا کہ مجھے اس پالیسی سے متعلق ایک کمیٹی کا رکن ہونے کے باوجود ہمارے کسی مشورے کا لحاظ نہیں کیا گیا چونکہ یہ پالیسی پہلے سے آر ایس ایس نے طے کر رکھی تھی حکومت اس کا نفاذ کر رہی ہے۔یہ پالیسی بھارت کے یرقانی طبقے کو فائدہ پہنچانے اور ہندوراشٹر کے خواب کو پورا کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ملک کے سب لوگوں کو اس کی بھرپور مخالفت کرنا چاہیے۔ مقرر خصوصی جناب اسحاق راہی صاحب نے اپنی گفتگو میں تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فطرت کے خلاف اور زور زبردستی سے نافذ کیا گیا کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ ماضی میں روس میں کمیونزم کی ناکامی اس کی زندہ مثال ہے۔اس سیمینار میں بحیثیت مہمان مقرر پروفیسر ڈاکٹر تنویر اورنگ آباد نے نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آر ایس ایس کے زہریلے ایجنڈے کو خوبصورت بنا کر بڑی چالاکی سے نافذ کررہی ہے۔ تنوع ( ڈایورسٹی) اور ایک ملک ایک تہذیب کے نام پر ہندوتو کےفرسودہ طبقاتی نظام کو دوبارہ تھوپنے کی طرف گامزن ہے۔ لہذا حکومت کی یہ پالیسی غریبوں ،اقلیتوں کے مفادات کے ہی نہیں پورے ملک کے خلاف ہے ۔سارے انصاف پسند اور انسان دوست اہل علم لوگوں کی ذمّہ داری ہے کہ اس پالیسی کی حقیقت اور مستقبل میں ہونے والی تباہی سے عوام کو آگاہ کریں۔آخر میں مہمان مقرر جناب منیر دیشمکھ صاحب اورنگ آباد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اس خطرناک ایجنڈہ کے خلاف آواز بلند کرنا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے ۔شاندار ماضی کی طرح ساری دنیا کو آج بھی مسلمانوں سے بہت توقع ہے لہذا حالات کا تقاضا بھی ہے کہ امت اپنے اور اپنی نسلِ نو کی دین و دنیا کی سلامتی کیلئے سنجیدگی سے ٹھوس منصوبہ بندی کر لاحۂ عمل ترتیب دیں ۔ اساتذہ اس کام میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آخر میں دعا پر اِس سیمنار کا اختتام ہوا۔اس سیمنار کو کامیاب بنانے میں تعلیمی کمیٹی کے ذمّہ داران و عہدیدران نے محنت کی۔