حاجی سیّاحؒ اور قندھار میں اشاعت دین
جس دن سے انسان اس جہان رنگ وبود میں آباد ہوا ہے یہ شان توحید پرستوں ہی کوحاصل ہوئی کہ باربارمسلمانوں نے کثرت افواج کےفلسفے پر جذبئہ ایمانی سے ہمیشہ فتح پائی چشم فلک ہردور میں ایسے واقعات دیکھتی رہی ہے اور تاریخ کے اوراق ایسے ہزاروں درخشاں واقعات سے بھرے پڑے ہیں یہ داستانِ ایمان جنگ بدرسے شروع ہوئی اور ہر دور میں بارباراہل دنیاء کےسامنے دہرائی جاتی رہی ہے
چنانچہ 725 ہجری میں یہی معرکہ دکن کے بعض صوبوں ‘قندھار , ناندیڑ , اور موجودہ کرناٹک کے بعض آبادیوں میں دہرایا جارہاتھا اس وقت مسلمانوں کی ان مقامات پر ابتدائی عملداری تھی "مہاراجہ رائے بےجن” کرناٹک کی فوجیں دیگر مختلف راجاؤں کے چھوٹے چھوٹے گروہ مسلمانوں کی آنے والی آبادیوں پر حملے کرتے اور مال ومتاع کی بے جاہ تکالیف دیا کرتے اسی سال دہلی میں "سلطان غیاث الدین تغلق” کا انتقال ہوا اور اسکے بیٹے "سلطان محمد تغلق” نے دہلی کے تخت پر جلوس کیا اور اسی نے دکن کی جانب توجہ کی دیوگیر کا نام دولت آباد رکھکر اس کو اپنا دارالسلطنت مقرر کیا۔
چنانچہ سرورمخدوم حاجی سیاح سید سعیدالدین رفاعی قندھاریؒ نے اسی عرصی میں شیخ ابراھیم سپہ سالار کے ہمراہ دہلی کو خیر آباد فرمایا اور "ملتان ,پنجاب, دیگر مختلف مقامات پر فوج اسلام کی رہبری فرماتے ہوئے ایک قائد کی طرح ملک دکن پہنچے جب آپ نے مظلوموں پر کیے جانے والے بےجاہ سلوک کو دیکھا تو پھر ایک دفعہ اپنی عدل کی تلوار اور نسبی شجاعت وبہادری سے ظالم اور باطل پرستوں کے نامورحکام کو موت کے سپرد کردیا جس کے سبب ظالموں کے لشکروں میں انتشار برپا ہوگیا یہی وجہ ہے کہ آپ کو "کفار بھنجن” کے لقب سے جاناجاتا ہے آپ نے کئی دفعہ بیت اللہ کا سفر کیا اور تبلیغ دین کی خاطر کئی ملکوں کا رخت سفر باندھا یہی وجہ ہے کہ آپ کو "سیّاح ” کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
حضرت سرور مخدوم حاجی سیاح سید سعید الدین رفاعیؒ آپ حسینی سادات میں سے ہیں آپ کا سلسلہ نسب والد ماجد کی جانب سے چوبیس واسطوں سے سید الشہدا امام حسین عالی مقامؓ سے جاملتا ہے اور والدہ کی جانب سے آپ فاروقی شان رکھتے ہیں آپ کے اجداد ملک عراق اور بصرہ سے ہجرت فرماکر دہلی منتقل ہوئے اور یہی سکونت اختار کرلی آپ کا روحانی تعلق تصوف کےسلسلہ عالیہ رفاعیہ سے ہے نیز آپ کے اجدا اسی سلسلہ تصوف کے کِبار مشائخ گردانے جاتے ہیں اس کے علاوہ سرور مخدومؒ خود اپنے مکتوبات میں سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین محبوب الہیؒ کی خدمت میں رہنے کا ذکر فرماتے ہیں کہ "ایک روز میں شیخ الاسلام نظام الحق والدینؒ کی خدمت میں حاضر تھا دیکھا کہ بہت سی مخلوق خدا حاضر خدمت ہے ہر کوئی آگے بڑھ کر آپ کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کررہا ہے حضرت خواجہ نے میری جانب مخاطب ہوکر فرمایا "سعیدالدین !جانتے ہو یہ ہجوم خلق کیوں ہے ؟ میں نے عرض کی کہ محبین حسن عقیدت سے حاضر خدمت ہیں ارشاد فرمایا کہ ہر شخص کا آنا غرض سے خالی نہیں ہے مگر اہل ارادت بہت ہی کم ہے.
اس واقعہ کی ایک مدت بعد جب حضرت شیخ کا وصال ہوا اور تین روز تک اسی مقام پر ٹہرا رہا تیسرے روز بوقت اخیر شب مراقبہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک محافہ ( عمدہ ڈولی سواری ) فلک سے صحراء میں اتری قریب جاکر دیکھا تو حضرت شیخ محافہ میں تشریف فرماہے میں نے عادت کے موافق سلام کیا شیخ نے جواب ارشاد کیا اور خیریت پرسی کی فرمایا سعید الدین مجھے تھام لو تاکہ میں وضوء کرلوں شیخ کو وضو کروایا اور مصلے کو بچھا یا تاکہ شیخ نماز سے فارغ ہوں شیخ نے ایک کنجی عنایت کی اور فرمایا فلاں ہجرے میں دیکھو کیا ہے جاکر دیکھا کہ اس میں خالی چھوٹی چھوٹی دیگچیاں ہیں جو چھت تک لگی ہوئی ہیں بموجب ارشاد ان کو کھول کر دیکھا تو ساری خالی تھیں جب شیخ کو عرض کیا کہ وہ ساری خالی ہیں شیخ نے فرمایا کہ دروازہ بند کردو پھر ارشاد ہوا کہ ہمیں محافہ میں سوار کردو عرض کی کہ اگر حضور اجازت دیں تو ہمراہ چلوں ارشاد ہوا تم کو بہت کام کرنا ہے اس لیےابھی اجازت نہیں ہے پھر کیا دیکھا کہ جیسے جیسے محافہ بلند ہوتا ہے بہت سے لوگ محافہ سے لپٹ گئے اور بہت سے گر بھی گئے اور صرف کچھ ہی حضرت کے ہمراہ چلے گئے جب مراقبہ مکمل ہوا تو حضرت کا وہ ارشاد یاد آیا "اہل ارادت معدودے چند ہیں ”
الغرض کہ سرور مخدوم جب قندھار شریف کی سرزمین پر رونق افروز ہوئے تو اس وقت قندھار کفرستاں کہلاتا تھا اور یہاں ہر طرف کفر کی ظلالت و تاریکی کا اندھیرا تھا لیکن سرورمخدوم ؒ کے پُرفیض قدوم کی برکت نے ان سب ظلمتوں کی کدرتوں کو تباہ و ویران کردیا اور نور اسلام کے فیض و برکات سے منور کردیا آپ کی چشم کرامات کا اس قدر چرچہ ہونے لگا کہ دور دراز سے لوگ جوق درجوق حاضر خدمت ہوتے اور آپ کے دست پر حلقہ بگوش اسلام ہوتے اور یہی سلسلہ تادم حیات جاری رہا اور آج بھی آپ کا آستانہ دین اسلام کا مرکز بنا ہوا ہے آپ کی تاریخ وصال مولانا شاہ رفیع الدین قندھاریؒ نے کتاب تحفۃ الاحمدی میں سترہ رجب المرجب 736 ہجری تحریر فرمائی ہے۔
از شاہ محمد رفیع الدین فاروقی رفاعی قادری