اپنے بھتیجے ایکسل کے ساتھ وہ اس قدیم دستاویز کو ڈی کوڈ کرنے میں کامیاب رہے اور انھوں نے دریافت کیا کہ اس دستاویز میں کچھ غاروں کے خفیہ راستے کی بات کی گئی ہے جو زمین کے مرکز تک جاتے ہیں۔سائنس کے نام پر چچا اور بھتیجے نے آئس لینڈ کا سفر کیا جہاں سے انھوں نے ایک مقامی گائیڈ ہنس بیجلکے کے ساتھ کرہ ارض کی گہرائیوں کا سفر شروع کیا۔یہ مہم ایک بجھے ہوئے آتش فشاں تک پہنچی اور وہاں ان تینوں مہم جوؤں کو چمکدار چٹانوں، اینٹیڈیلویئن جنگلات اور شاندار سمندری زندگی پر مبنی زیر زمین دنیا ملی۔
وہ زندہ ماضی انسانی وجود کی ابتدا کے سربستہ راز کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھا۔سائنس فکشن کے شائقین جانتے ہوں گے کہ زمین کے اندرون یا مرکز کی کہانی فرانسیسی مصنف جولس ورن کے تخیل سے نکلی ہے جنھوں نے اپنی تصنیف ‘جرنی ٹو دی سینٹر آف دی ارتھ’ میں اس وقت کے نظریات کو دریافت کیا کہ ہمارے پیروں کے نیچے کیا ہے۔لیکن اگر ہم زمین کے 6,371 کلومیٹر نیچے چلے جاتے ہیں تو ہمیں کیا ملے گا؟ آج سائنسداں یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ زمین کے اندر کا مرکز چھ ہزار تین سو اکتہر کلو میٹر پر واقع ہے۔یہ جاننے کے لیے آئیے ہم زمین کے مرکز تک اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔
جانوروں کے بل:ہماری دنیا پرت در پرت یعنی تہہ در تہہ بنی ہوئی ہے یعنی کسی حد تک پیاز کی طرح۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں زندگی صرف پہلی یا اوپری تہہ یعنی کرسٹ پر موجود ہے۔اس میں آپ کو چھچھوندر اور بیجر یا بجو جیسے جانوروں کے بل ملتے ہیں۔سب سے گہرے بل دریائے نیل کے مگرمچھوں نے بنائے ہیں جو 12 میٹر کی گہرائی تک جاتے ہیں۔کرسٹ یا پہلی تہہ قدیم زیرِزمین شہروں کا مسکن بھی ہے جیسے ترکی کا ایلینگوبو جسے آج ڈیرنکویو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ زمین کی سطح سے 85 میٹر سے زیادہ نیچے ہے۔سرنگوں کی 18 سطحوں کے ساتھ یہ وسیع بھول بھلیاں 20 ہزار افراد کو پناہ دینے کے قابل ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شہر تقریباً 370 سال قبل مسیح بنایا گیا تھا اور ہزاروں سالوں تک تقریباً مستقل استعمال میں تھا۔دنیا کی سب سے گہری کانیں تقریباً چار کلومیٹر نیچے تک جا سکتی ہیں۔
جنوبی افریقہ میں سونے کی کان کے کان کنوں کو دو کلومیٹر گہرائی میں کیڑے ملے ہیں لیکن تین کلومیٹر تک پہنچتے پہنچتے تمام طرح کی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔اس کے بعد اب تک کا سب سے گہرا سوراخ روس میں کولا کا انتہائی گہرا کنواں ہے۔کچھ اسے جہنم کا دروازہ کہتے ہیں اور مقامی باشندے وہاں سے اذیت زدہ روحوں کی چیخیں سننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
کیلیڈوسکوپ یا عکس بین:سائنسدانون کے مطابق 30 سے 50 کلومیٹر گہرائی کے درمیان ہم اگلی تہہ تک پہنچتے ہیں جسے مینٹل کہتے ہیں۔یہ ہمارے سیارے کا سب سے بڑا خطہ ہے جو اس کے حجم کا تقریباً 82 فیصد اور اس کی 65 فیصد کمیت پر مشتمل ہے۔یہ گرم چٹانوں سے بنا ہوا خطہ ہے جو ہمیں ٹھوس معلوم ہوتا ہے، لیکن درحقیقت یہ بہت سست رفتاری سے بہتا ہے یعنی سال میں صرف چند سینٹی میٹر۔نیچے کی یہ خفیف تبدیلیاں اوپری تہہ پر زلزلوں کو جنم دے سکتی ہیں۔یہاں ایک چمکتا ہوا سمندر بھی ہے جو اتنا بڑا ہے کہ اس میں روئے زمین پر موجود تمام سمندروں کا پانی سما سکتا ہے۔تاہم، اس میں مائع کی ایک بوند بھی نہیں ہے۔یہ میگنیشیم اور لوہے کے چمکدار غلاف کے اندر پھنسے ہوئے پانی سے بنا ہے جو اوپری مینٹل کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ ہے۔اس سے نیچے سطحوں پر اس کا رنگ انڈیگو نیلا ہو جاتا ہے اور رنگووڈائٹ کرسٹل یا بلوروں میں بدل جاتا ہے۔جیسے جیسے ہم نیچے جاتے ہیں، بڑھتے ہوئے دباؤ کا مطلب یہ ہے کہ ایٹم کی شکل بگڑ جاتی ہے یہاں تک کہ سب سے زیادہ مانوس مواد بھی عجیب و غریب برتاؤ کرتے ہیں۔یہ ایک گھومنے والی جگہ ہے جس میں کرسٹل یا بلور کے عکس بین کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ یہ سبز سے نیلے رنگ میں بدلتے ہوئے بھورے ہوتے جاتے ہیں۔وہاں ایک ایسی دنیا نظر آتی ہے جس میں چٹان پلاسٹک کی طرح کمزور ہو جاتے ہیں اور وہاں معدنیات اتنے نایاب ہیں کہ وہ سیارے کی سطح پر موجود نہیں ہیں۔
درحقیقت وہاں سب سے زیادہ پائے جانے والے برج مینائٹ اور ڈیوماوائٹ کے بننے کے لیے سیارے کے اندرونی حصے میں انتہائی اعلی دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر وہ ہماری دنیا میں لائے جائیں تو وہ منہدم یا ختم ہو جائیں گے۔2900 کلومیٹر کی گہرائی میں ہم مینٹل کی تہہ یعنی جڑ تک پہنچتے ہیں۔
تصویر میں ان دو بے شکل گلابی چیزوں کو دیکھیں؟:یہ بہت بڑے ڈھانچے ہیں اور ہزاروں کلومیٹر پر محیط ہیں اور پورے سیارے کے حجم کا چھ فیصد ہیں۔انھیں لارج لو شیئر ریٹ پروونس یعنی (LLSVPS) کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کے باقاعدہ نام بھی ہیں:’توزو‘ افریقہ کے نیچے واقع ہے اور ’جیسن‘ بحرالکاہل کے نیچے دیکھا جا سکتا ہے۔ان کی گہرائیوں کے تخمینے مختلف جگہوں پر مختلف ہیں لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ توزو 800 کلومیٹر تک گہرا ہے، جو کہ اوپر تلے تقریباً 90 ایورسٹ پہاڑوں کے برابر ہے۔جبکہ جیسن کہیں کہیں 1800 کلومیٹر تک گہرا ہے جو کے تقریباً 203 ایورسٹ کے برابر ہے۔وہ کتنے گہرے ہیں اس کے علاوہ ہم ان کے بارے میں تقریبا کچھ نہیں جانتے۔ ان کے بارے میں تقریباً ہر چیز غیر یقینی ہے، بشمول یہ کہ وہ کیسے بنتے ہیں، وہ کس چیز سے بنے ہوئے ہیں اور وہ ہمارے سیارے کو کیسے متاثر کر رہے ہیں وغیرہ۔ایسا لگتا ہے کہ ان کے بدشکل جسم اگلی پرت یعنی بیرونی کور سے چمٹے ہوئے ہیں۔
بلوری قلب:جولس ورن کے کلاسک ناول میں پروفیسر لڈن بروک کو ایک پوری زیرزمین دنیا کا سامنا رہتا ہے۔اگرچہ ڈائنوسارز تھوڑی اوپری تہہ پر رہے ہوں گے لیکن وہاں واقعتاً مائع دھات کا ایک سمندر ہے جو ہلکی اور سست رفتار لہروں کے ساتھ سرخ گرم بہتا ہے۔ اس میں طوفان بھی اٹھتے ہیں جو مائع دھات کے طوفان ہیں۔اس نقل و حرکت سے ایک میگنیٹک فیلڈ پیدا ہوتی ہے جس کے بغیر زمین پر زندگی ممکن نہیں ہوتی۔مقناطیسی کرہ زیادہ تر شمسی تابکاری اور ذرات کے بہاؤ سے بچاتا ہے جو دوسری صورت میں فضا کو تباہ کر دیتا ہے۔پھر وہاں سے ہم آخری تہہ پر آتے ہیں جسے اندرونی کور کہا جاتا ہے اور یہ کرۂ ارض کی سب سے پراسرار چیزوں میں سے ایک ہے۔
یہ سورج کی سطح جتنا گرم اور چاند سے تھوڑی چھوٹی ٹھوس لوہے اور نِکل کی ایک انتہائی گھنی گیند ہے۔وہاں دباؤ اتنا شدید ہے کہ دھاتیں کرسٹلائز ہو کر ہمارے سیارے کے بیچ میں ایک ٹھوس کرہ بناتی ہیں۔یہ دراصل ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم شاید کبھی نہیں پہنچ پائیں۔وہاں حالات اتنے سخت ہیں یعنی چھ ہزار سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور 35 کروڑ فضائی دباؤ کہ کوئی بھی تحقیقات اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔یہ دھاتی سمندر میں معلق وہ بلوری دنیا ہے جو ایک معمہ ہے اور شاید ہمیشہ معمہ ہی رہے گی۔لیکن سائنس دان سطح سے اس کا مطالعہ کرتے رہیں گے اور جتنا زیادہ اس کے بارے میں معلومات ملتی ہیں اتنا ہی ایسا لگتا ہے کہ ہم اسے کم سمجھ رہے ہیں۔ بہر حال سائنس اور تخیلات کی کوئی حد نہیں ہے۔