جامعہ ملیہ کا گیٹ نمبر 7 کااحتجاج دو دن کے لئے منتقل ۔جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کااعلان

نئی دہلی :۷۔فروری ۔دہلی پولیس کے کہنے پر یونیورسٹی انتظامیہ نے طلباء کے لیے اپیل جاری کی ہے کہ “طلباءاپنی حفاظت اور سلامتی کو خطرے میں نہ ڈالیں اور گیٹ نمبر 7 سے ہٹ جائیں”۔ رجسٹرار کو مخاطب کرتے ہوۓ پولیس نے یونیورسٹی کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ 08.02.2020 کو دہلی میں انتخابات کا بہانہ لیتے ہوئے مظاہرین کو سڑک سے ہٹائے۔

لیکن JCC (جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی ) یہ واضح کرتی ہے کہ ملک کے جمہوری نظریات کو برقرار رکھنے کے لئے سی اے اے ( CAA )کے خلاف ہماری تحریک جاری رہیگی۔ مگر ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انتخابی عمل ملک کے جمہوری اقدار کا ایک لازمی عنصر ہے اور ہم انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد میں بھرپور تعاون کریں گے۔ اور انتخابی ضابطہ اخلاق کا مکمل احترام کریں گے۔ لہذا ہم نے اپنا احتجاج گیٹ نمبر 7 سے صرف دو دنوں کے لیے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کیا جارہا ہے کہ رائے دہندگان کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے اور اس سے باہر آنے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ احتجاج کی وجہ سے ٹریفک میں رکاوٹ پیدا نہ ہو تاکہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم انتظامیہ اور پولیس حکام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ تعاون کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ پرامن مظاہرین کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ یہ تبدیلی صرف 7 اور 8 فروری کے لیے ہے۔ 9 فروری کو دوبارہ 7 نمبر گیٹ سے احتجاج جاری رہی گا ،دریں اثناء احتجاج گیٹ نمبر 4 پر چلتا رہے گا۔

ہماری جدوجہد ملک کے آئینی اقدار کے تحفظ ،اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے ہے۔ ہم یونورسٹی انتظامیہ کے اس اپیل کی مذمت کرتے ہیں جس میں یونیورسٹی انتظامیہ نے سی ای اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کے خاتمے کے لئے طلبہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ انتظامیہ یہ کہتے ہوئے ذمہ داری سے دستبردار ہونا چاہتی ہے کہ وہ سڑک پر احتجاج کرنے والے طلباء کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ جبکہ وہ 15 دسمبر کو یونیورسٹی لائبریری کے اندر بھی یونیورسٹی طلباء کی حفاظت کو یقینی نہیں بناسکے تھے۔ انتظامیہ نے اس ناکامی کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے۔ واضح رہے کہ انتظامیہ کی جانب سے اہل علاقہ کے مظاہرین اور یونیورسٹی کے مظاہرین کے مابین استثناء پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے جامعہ ملیہ کے اسٹوڈنٹس ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔

کچھ دن پہلے انتظامیہ نے بوائز ہاسٹلز میں بھی ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں طلباء کو ’’ مشتعل طلبا ‘‘ سے الگ ہونے کا مشورہ دیا گیا تھا اور وجہ یہ بتائی تھی کہ ایسے طلباء یونیورسٹی کے کام میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔لہذا انتظامیہ مظاہرین کی شبیہہ کو بدنام کرکے احتجاج کو ختم کرنے کے لئے دباؤ بناتا چاھتی ھے۔جسے ہم بالکل برداشت نہیں کریں گے۔۔
واضح رہے کہ پولیس فورس جو 30 جنوری 2020 کو جے سی سی کے ذریعہ مارچ میں ہندوتوا دہشت گردانہ حملے کے لئے شرمناک تماشائی بن کر کھڑی ہوئی تھی، دن کی روشنی میں ایک طالب علم کو پولیس فورس کی آنکھوں کے سامنے گولی مار دی گئی تھی ۔ اگر پولیس کا ہماری سیکیورٹی کو یقینی بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس کے برعکس طلباء پر دہشت گردی کے حملے ہوتے ہوئے پولیس خاموش تماشائی بنی رہے تو کیا ہم ملک کے کسی بھی کونے میں شہری کی حیثیت سے محفوظ ہیں؟ ایسی ریاست میں جہاں محافظ ہی تشدد کے مرتکب ہیں ، ہم اپنی سلامتی کے لیے کہاں جائیں؟؟؟
فاشسٹ ریاست اور اس کی مشینری ، جس میں پولیس فورس بھی شامل ہے ، کے خلاف مزاحمت کی جانی چاہئے اور مزاحمت اس ملک کی سڑکوں پر ہونی چاہئے۔ حیرت ہے کہ پولیس کھلے عام دعوا کرتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی نہیں بنا سکتی! یہ سراسر انتشار اور لاقانونیت کا شکار ہونے کا واضح اشارہ ہے۔ اور سڑکوں پر نکلنے کی اور بھی بڑی وجہ ہے۔
لہذا جامعہ ملیہ کی مزاحمت جاری رہے گی۔