آج بتاریخ 8/فروری کو کرناٹک ہائی کورٹ میں کالج اور اسکول کے معاملے میں دائر کردہ درخواست کی سماعت ہونی ہے،ساتھ ہی یہ فیصلہ وسعت اختیار کرتے ہوئے تمام پبلک اور تفریحی مقامات پر حجاب سے متعلق حجاب کے خلاف بھی آ سکتا ہے،ایسے میں P E S college Mandiya. میں ایک برقعہ پوش مسلم لڑکی کے داخلے کے بعد جنونی سنگھی غنڈے جو کسی بھی صورت اسٹوڈنٹس نہیں لگتے مسلم لڑکی کی جانب بڑھتے جارہے تھے۔
اس اکیلی لیکن توکل علی اللہ کے جذبے سے سرشار اپنے حقوق اور تحفظ کی جنگ لڑنے کے لیے نکل کھڑی ہوئی مسلم لڑکی ،کیوں کہ شاید اس نے سمجھ لیا کہ اس کی حفاظت جس محمد بن قاسم کے ذمہ تھی وہ صدیوں پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکا اب اس کی پکار پر کوئی محمد بن قاسم نہیں آنے والا،اسی احساس نے اسے کالج میں اللہ کے بھروسے اکیلے داخلے کی طاقت بخشی ، اور جنونیوں کے نعروں کے مقابلے میں اللہ اکبر کے بے باک نعرے بلند کررہی تھی،
دوسری طرف مہاتما گاندھی کالج میں بھی یہی صورت حال تھی سیکڑوں سنگھی غنڈوں کے بیچ برقعہ پوش مسلم لڑکیاں ۔اس صورت حال کو لیکر یہ بات مسلسل ذہن کو ہچکولے دے رہی ہے کہ احتجاج کے مقام اور کالج میں داخل ہونے والے زعفرانی رنگ کی رومال اوڑھ کر حجاب کے خلاف نعرے لگانے والوں کو داخلہ کس طرح مل رہا ہے کون ہیں یہ لوگ؟؟ طلباء میں اتنی نفرت کیوں ہے؟یا طلباء کے نام پر سنگھی غنڈوں کو کالجییس میں گھسایا جارہا ہے ،اور وہاں کھڑی اور بیٹھیں مسلم طالبات جو اپنے حقوق کے لیے لڑرہی ہیں ان کی حفاظت کا ذمہ کس کے سر ہے؟مسلم قیادت سے سوال ہی درکنار ہے!!
اپنی بچیوں کی حفاظت کے لیے ان کے بھائی اور بڑوں کو کالج میں داخل ہونا چاہیے کیونکہ، ان جنونی سنگھیوں کا کوئی بھروسہ نہیں کہ جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرح طلبہ کی بھیس میں گھس کر دست درازی کی کوشش کرے،سیکولر منافقت کی ساری نقابیں اتر چکی،حق اور باطل کا فرق واضہ ہوچکا،اسلام اور کفر میدان میں آمنے سامنے ہیں،تہذیب اور شناخت کی بقا اور سلامتی کی جنگ شروع ہوچکی ہے،این آر سی ،سی اے اے،طلاق ثلاثہ، اور اب حجاب انشاءاللہ انہیں تہذیب کی امانت کو اپنی نسلوں میں منتقل کرنے والی اسلام کی کمزور لیکن محاذ پر ڈٹی بہنوں کے ذریعے ہندوستان میں اسلام کو وقار نصیب ہوگا،ساتھ ہی بوڑھی قیادت کی معذولی اور جوان جو پیروں کے استاد ہونگے اس کا وقت آچکا ہے