تو شاہیں ہے بسیرا کر….. (شاہین باغ اور جامعہ روڈ سے ایک تحریر)
شاہین باغ کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے پِنڈال میں تمام تر انتظامات خود مقامی خواتین سنبھال رہی ہیں.وہاں کا حال یہ ہےکہ سیاسی لیڈروں یا نیم سیاسی علماء کو سرے سے کوئی فوٹیج نہیں مل رہا ہے کیونکہ وہاں ایک قسم کے جذباتی اور منطقی احتجاج کی طرح پڑچکی ہے. بعض حلقوں میں یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہےکہ احتجاج کے مقامات پر علماء کی شرکت سے معاملہ مذہبی اور نقصان دہ ہوگا تو یہ بےبنیاد بات ہے کیونکہ دھرم، مسلک اور مشرب کی رعایت کے بغیر ہر طبقہ جب وہاں یکجہتی کے جذبات پیش کررہا ہے اور اس سے کوئی دقّت نہیں ہورہی ہے تو پھر کچھ جیّد علماء کے وہاں جانے اور کتاب وسنّت پر مشتمل تقریر کرنے سے بھلا کیا دقّت ہوسکتی ہے؟باشعور خواتین اپنی منشا اور اپنی ترتیب سے دھرنے پر بیٹھ گئی ہیں اور وہاں آنے والوں افراد کی تقریروں کو طےشدہ منتظمہ بخوبی نبھا رہی ہے اس میں کسی باہری عنصر، لیڈر یا کسی بھی دخل پسند کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے.
جن پارٹیوں اور این جی او کے مؤقر افراد وہاں جارہے ہیں وہ تو خود وہاں سے تحریک لے کے واپس ہورہے ہیں، چنانچہ کسی کی یہ بساط نہیں ہے کہ وہ چند ایڈوینچرز پیش کرکے وہاں تحریک پر مسلط ہوسکے.توسیع پسند زعماء اِس داخلی حقیقت سے جس قدر جلد آشکارا ہوجائیں یہ خود ان کی صحت اور تحریک کی صحیح جِہت کے لئے بہتر ہوگا.
شاہین باغ یا جامعہ میں مہمان لیڈروں کو جب موقع دیا جاتا ہے اسی وقت وہ پانچ دس منٹ کی تقریر کرسکتے ہیں اور یوں وہ خواتین و طلباء کی ہمت افزائی کا فرض ادا کرتے ہیں، اسطرح سے کچھ دیر کے لئے جڑنے والے لیڈروں کی تقریروں سے خواتین کو اخلاقی کمک ملتی اور وہ جم کر تقاریر سن بھی رہی ہیں.
ملحوظ رہے کہ شاہین باغ میں باہر سے آنے والے مقررین میں بھانت بھانت کے سکیولر، دلت اور کمیونسٹ طبقات کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے انقلابی خطاب سے خواتین کو اخلاقی تائید پیش کررہے ہیں اسلئے “علماء” کو بلاوجہ شجرِ ممنوعہ بناکر پیش کرنے سے گریز کیا جائے چاہے قائلین کتنے ہی مخلص ہوں.
ایک فیصد سے بھی کم تعداد میں علماء کی آمد سے تحریک کی آزاد حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے بلکہ ذی شعور علماء تقریریں کیا کریں تو شاید یہی ہوگا کہ مسلم گھرانوں سے آنے والی خواتین کی فکروں کو شرعی غذا ملےگی جبکہ تحریکی جذبہ ان میں پہلے سے جاگزیں ہوچکا ہے.
ہاں البتہ نام نہاد علماء اور زعماء جب انفراداً جانے کے بجائے وہاں خیمہ زن ہوں گے تو یقیناً واہی تباہی ہوگی اور اسٹوڈنٹس کی تحریک پر مذہبیت کا ٹیگ ٹھپّہ لگےگا جو ظاہر ہے کہ منووادی طاقتوں کے حق میں ہے.
جو عمارت کے معمار نہ ہوں تنظیمی معاملات میں اخلاقاً دخیل نہ ہوں.خالص اسٹوڈنٹس کی جانب سے برپا کی جانے والی تحریک میں شرکت کرکے “زیرِقیادت” کا ٹائٹل شائع ہوگا تو مقامی منتظمہ کے کان کھڑے ہوں گے اور بیگانے کے یہاں انجانے کا میلہ لگے یہ کوئی پسند نہیں کرتا ہے.
جامعہ اور شاہین باغ دہلی میں واقع ہیں اور یہاں لوگوں کے اندر سیاسی بیداری زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے، ایسے میں اسٹوڈنٹس کی تحریک کو خارج سے ہتھیانے کی سیاسی اور نیم مذہبی ہر کوشش کی مذمت ہونی چاہئے اور فضاؤں میں کسی بھی چانکیہ نیتی کی دستک نہیں ہونی چاہئے، اور ایسی اوچھی حرکت کی چہارجانب سے مذمت ہونی چاہئے.
حقیقت یہ ہے کہ اب سات دہائیوں کی مار کو تعلیم کے حوالے سے جھیلنے والے جوانان کسی بھی طرز کے جذباتی ڈھکوسلوں کو اکھاڑ پھینکیں گے.
ورنہ اس سے اچھا کیا ہوگا کہ ملک بھر سے مؤقر علماء وقتاً فوقتاً شاہین باغ یا جامعہ روڈ پر آئیں، تشجیع کا فریضہ انجام دیں اور واپس ہولیں، نیز موقع محل کی رعایت سے تقریریں کریں اور ان کے مشن سے ہم آہنگی کا اعلان کریں.
ایک بات اور بھی ہے کہ اگر آج علماء نے شاہین باغ، جامعہ اور ملک کے دیگر مقامات پر جیالوں کے ساتھ جرءت سے شرکت نہیں کی تو خطرہ ہےکہ یہ تحریکیں نہ صرف علمی رہنمائی سے محروم رہیں گی بلکہ نجانے کن کن افکار و نظریات کی نذر ہوجائیں گی.
خدانخواستہ ان جگہوں پر علماء کی شرکت سے مذہبی ٹیگ لگنے کا خدشہ ہے جو کہ حقیقتاً بےبنیاد اندیشہ ہے تو پھر کل کے لئے یہ اندیشہ بھی تیار رہےگا کہ وقت پڑنے پر علماء ملّت کے ساتھ نہیں بلکہ ظالموں کے ساتھ جنیوا میں کھڑے تھے اور پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے ہر ایکٹ کی وکالت کررہے تھے.
ممکن ہے کچھ ضمیر ذاتی مفادات میں مردہ ہوچکے ہوں مگر علماء کی بڑی تعداد بیدار ہے جنہیں خود کو امت پن کے مشن پر گامزن کرکے دنیادار علماء اور سرکار کے چنگل سے ملک وملّت کو بچانا ہوگا.
خیرخواہوں سے عرض ہےکہ مقامِ احتجاج میں تمام علماء کی شرکت کی نفی کرنے کے بجائے ان “علماء” کو ناکام بنائیں جو جامعہ اور شاہین باغ جیسی عوامی تحریکات کو “زیرِقیادت” لانے کو اتارو ہیں.
وقتی خطاب کے لئے جانے والے علماء و دانشوران کی ستائش کرنا ضروری ہے مگر ان لوگوں کو تنقیدوں کے تیر و تفنگ برساکر بیک فٹ پر دھکیل دینا چاہئے جو جامعہ کیمپس اور شاہین کیمپ پر جاہ کے سیاہ پنجے گاڑنا چاہتے ہیں، جس کے نتائج بجز نقصان کے اور کسی شکل میں نکلنے والے نہیں ہیں.
ہر متحرک مسلم اور غیرمسلم کے لئے جامعہ اور شاہین باغ کے موجودہ احوال دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں اسٹوڈنٹس اور خواتین کا تنظیمی ڈھانچہ لائقِ دید اور ناقابلِ تردید ہے، کیا ہی اچھا ہوکہ علماء اور زعماء یہاں عام آدمی کی طرح آئیں اور ملک کے دوسرے شہروں میں نئے شاہین باغ بنانے کے عمل میں جٹ جائیں.