ترکیہ صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان : جشن کا ماحول : ویڈیو دیکھیں
صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ میں پولنگ میں حصہ لیتے ہوئے اپنی رائے کا مظاہرہ کرنے والے تمام شہریوں کا شکرگزار ہوں۔ترکی کے اردگان نے صدر کے طور پر دوبارہ انتخاب جیت لیا: سرکاری میڈیا
صدر ایردوان نے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے ووٹوں کی گنتی کے بعد اپنا پہلا بیان استنبول سے جاری کیا ہے ۔ اس دوران بلند سطح پر شراکت کی بنا پر رائے دہند گان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی تقریر کو شروع کرنے والے ایردوان نے کہا کہ” مزید 5 برسوں تک ملکی نظم و نسق کو ہمارے ہاتھ میں دینے والے قوم کے ہر فرد کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ ہم آپ کے اعتماد کے مستحق بنیں گے۔ دوسرے مرحلے کے غیرحتمی نتائج کےمطابق ا میدوار ایردوان 52 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوبارہ صدر منتخب ہوئے ہیں۔
ترکی صدارتی انتخابات 2023ء :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رجب طیب اردوغان کی فتح کے بعد آیا صوفیہ کے مناظر !
ہر طرف تکبیر کی صدائیں ۔۔۔!
یا اللہ! بسم اللہ! اللہ اکبر ! pic.twitter.com/osDbmEzbIo— Majlis ilmi | مجلس علمی (@Majlisilmi) May 28, 2023
صدر کا کہنا تھا کہ جیسا کہ ہم نے کہا تھا ہماری جیت ایسی ہو گی جس میں کسی کو شکست نہیں ہو گی، لہذا آج جیت ترکیہ کی ہوئی ہے۔
ترکیہ کے 13 وین صدر رجب طیب ایردوان ہیں۔ انتخابات میں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شراکت کا تناسب 85 فیصد کے قریب رہا ہے۔ ووٹوں کی شرح کچھ یوں رہی ؟ آک پارٹی کے رہنما رجب طیب ایردوان: 52 فیصد، ریپبلیکن پیپلز پارٹی کے رہنما کمال کلچ دار اولو: 48 فیصد
رجب طیب اردوغان کو پہلے مرحلے میں برتری ایک ایسے وقت میں حاصل ہوئی تھی جب ترکیہ کی معیشت کی حالت کافی پتلی ہے اور تقریباً تمام رائے عامہ کے پولز نے ان کی شکست کی پیشن گوئی کی تھی۔
اتوار کو 69 سالہ ترک صدر استنبول کے ایک قدامت پسند ڈسٹرکٹ میں اپنی اہلیہ امینہ کے ساتھ ووٹ ڈالتے ہوئے تھکے ہوئے لگ رہے تھے لیکن وہ پرسکون نظر آئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اپنے شہریوں سے کہوں گا کہ باہر نکلیں اور بغیر کسی پریشانی کے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔‘.
امیر بلگن نے ترک رہنما کی پکار پر لبیک کہا۔ اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 24 سالہ نوجوان جن کا تعلق استنبول کے متوسط طبقے کے علاقے سے ہے، کہا کہ ’میں اردوغان کو ووٹ دینے جا رہا ہوں۔ ان کے جیسا اور کوئی نہیں ہے۔‘
کمال قلیچ داراوغلو پہلے مرحلے کے بعد ایک بدلے ہوئے آدمی بن کر ابھرے۔
سابق سرکاری ملازم کے سماجی اتحاد اور جمہوریت کے پرانے پیغام اور تارکین وطن کو فوری طور پر ملک بدر کرنے اور دہشت گردی سے لڑنے کی ضرورت کی تقریروں کو کافی پسند کیا گیا۔
انہوں نے دائیں بازو کی طرف جاتے ہوئے قوم پرستوں کو نشانہ بنایا جو پارلیمانی انتخابات میں بڑے فاتح بن کر ابھرے ہیں۔
74 سالہ کمال قلیچ داراوغلو نے ہمیشہ سی ایچ پی پارٹی بنانے والے فوجی کمانڈر مصطفیٰ کمال اتاترک کے پختہ قوم پرست اصولوں کی پاسداری کی۔
کمال قلیچ داراوغلو پہلے مرحلے کے بعد ایک بدلے ہوئے آدمی بن کر ابھرے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
لیکن اس نے ان کی سماجی طور پر لبرل اقدار، جس پر نوجوان ووٹرز اور بڑے شہروں کے رہنے والے عمل پیرا ہیں، کو فروغ دینے میں ثانوی کردار ادا کیا۔
کرد نواز پارٹی کے ساتھ ان کے غیر رسمی اتحاد کی وجہ سے انہیں اردوغان کی جانب سے ’دہشت گردوں‘ کے ساتھ کام کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
حکومت کرد پارٹی کو کالعدم عسکریت پسندوں کے سیاسی ونگ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اور قلیچ داراوغلو کے ترکیہ کی دائیں بازو کی جماعت سے اتحاد کی وجہ سے دو ہفتے قبل پہلے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے قوم پرست رہنما نے اردوغان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔