ترکیہ: رجب طیب ایردوان نے صدارتی عہدے کا حلف اٹھا لیا

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ہفتے کے روز تیسری مرتبہ اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ اب وہ اپنی نئی پانچ سالہ مدت کا آغاز کر رہے ہیں۔ وہ ملک میں پارلیمانی نظام کے تحت ماضی میں تین مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر بھی رہ چکے ہیں۔انقرہ میں ہفتے کو رجب طیب ایردوان کی تقریبِ حلف برداری منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت 21 ملکوں کے سربراہانِ مملکت اور 13 وزرائے اعظم نے شرکت کی۔

اس تقریب میں شرکت کے لیے جو درجنوں غیر ملکی معززین انقرہ پہنچے ان میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ اور سابق سویڈیش وزیر اعظم کارل بلڈٹ بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان، آذربائیجان کے صدر الہام علییف، وینیزویلا کے صدر نکولاس مدورو، جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا، آرمینیا کےوزیر اعظم نکول پشینیان اور لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ شامل ہیں۔

69 سالہ ایردوآن نے اٹھائیس مئی کو صدارتی دوڑ میں کامیابی حاصل کر کے اپنی 20 سالہ حکمرانی کی مدت میں مزید اضافہ کیا تھا۔ پچاسی ملین آبادی کا ملک ترکی، مغربی فوجی اتحاد نیٹو میں دوسری سب سے بڑی فوج رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ براعظم ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع یہ ملک لاکھوں شامی پناہ گزینوں کا میزبان بھی ہے اور اس نے روس سے جنگ کے دوران یوکرین سے اناج کی ترسیل کو یقنی بنا کر ایک عالمی خوراک کے بحران سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

ایردوآن نے اپنے وسیع و عریض صدارتی محل کے احاطے افتتاحی تقریب میں شرکت سے قبل پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران حلف لیا۔ ان کے حامیوں نے دارالحکومت انقرہ میں موسلا دھار بارش کے باوجود پارلیمنٹ کے باہر ان کا انتظار کیا۔صدارتی عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد صدر ایردوان اپنی کابینہ کے لیے ناموں کا اعلان کریں گے۔ سب کی نظریں اب ان کی نئی کابینہ کے اعلان پر لگی ہوئی ہیں۔ اس نئی کابینہ کی تشکیل سے ہی یہ بات واضح ہو سکے گی کہ آیا ان کی حکومت کی ماضی کی غیر روایتی اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا یہ وہ روایتی اقتصادی پالیسیوں کی جانب واپس لوٹیں گے۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ترکیہ کی موجودہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رہا تو معیشت بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ حالیہ عرصے کے دوران ترکیہ میں مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جب کہ کرنسی کی قدر میں بھی نمایاں گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔

رجب طیب ایردوان نے مسلسل تیسری مدت کے لیے صدارت کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔ اس سے قبل وہ 2014 اور پھر 2018 کے صدارتی الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔ایردوان کی جماعت آق پارٹی نے 2002 کے اواخر میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور ایردوآن نے پہلی مرتبہ 2003 میں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔

ترکیہ کے حالیہ صدارتی انتخابات سے قبل پیش گوئی کی گئی تھی کہ ملک میں جاری مہنگائی اور کرنسی کی قدر میں گراوٹ نے ایردوان کی مقبولیت کو متاثر کیا ہے۔ تاہم 14 مئی کو ہونے والے انتخابات اور پھر 28 مئی کو رن آف مرحلے میں ایردوان کی کامیابی نے انتخابات سے قبل سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں کو غلط ثابت کر دکھایا تھا۔

ایردوآن نے 28 مئی کو ہونے والے رن آف ووٹ مرحلے میں میں 52 اعشاریہ دو فی صد ووٹ لے کر حزب اختلاف کے حریف کمال کلیچ دار اولو کو شکست دی تھی۔ بین الاقوامی مبصرین نے ان انتخابات کو آزادانہ لیکن منصفانہ نہیں سمجھا۔ کِلیچ دار اولو نے ترکی کو مزید جمہوری راستے پر ڈالنے اور اس کے مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔اس سے قبل 14 مئی کو ووٹنگ کے پہلے راؤنڈ میں کوئی بھی امیدوار واضح طور پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔