تدبیر کا کاسہ ہے تقدیر گداگر ہے……..
تابش سحر
چشمِ تصوّر کے ذرئعہ وقت کا فاتح، سر جھکائے ماضی کے پرشکوہ محلّات دیکھ رہا تھا، جہاں وہ عزّت و شرف، حکومت و سلطنت، علم و فضل اور ظاہری و باطنی نعمتوں سے مالا مال تھا اب حالات یکسر بدل گئے تھے وقت کا سخی آج مفلس ہوگیا، شجاع بزدل قرار پایا، دشمن کے لئیے ہمیشہ تیّار رہنے والا جنگجو عیش و عشرت کا دلدادہ اور طبلہ و سارنگی کی دھنوں کا شائق ہوگیا، چٹّانوں پر بسیرا کرنے والا شاھین تختِ شاہی پر متمکّن کرگس کا گداگر بن گیا، چیتے کا جگر رکھنے والا زاغوں کی معیّت کے سبب اوصافِ شاہی سے محروم ہوگیا، دشمن نے مختلف حربوں سے اسے رام کیا، نیشنل ازم کا جام پلا کر اسے سرحدوں میں بانٹا، جمہوریت کا تعویذ پہنا کر خلعتِ خلافت کو تار تار کیا، ہیومینیٹی کامجسّمہ قائم کرکے انسانیت کی ایک نئی تعریف وضع کی، حقوقِ انسانی اور آزادی کے نام پر اس کے عقائد و قوانین کو فرسودہ تعلیمات کا مجموعہ قرار دیا، اس کی امتیازی شان و شوکت کو سیکولرازم کے قفس میں قید کرلیاـ
وہ سرجھکائے اپنی عظمتِ رفتہ کو یاد کررہا تھا، دشمن نے لاکھ سازشیں کی، جال بچھائے، مکر و شر اور دجل و فریب سے کام لیا لیکن اس کی شجاعت اور زورِ بازو کو کیا ہوگیا تھا؟
بےاختیار اس کے ہاتھ اپنی نیام کی جانب بڑھ گئے کہ دیکھ تو لوں کہ میری شمشیر کو آخر ہوکیا گیا ہے جس میں بجلیاں چمکتی اور موت رقص کیا کرتی تھی؟ جس کی چمک آفتاب کو شرمسار کردیتی اور تیزی سرکشوں کو عبرتناک سزا دیا کرتی لیکن یہ کیا……..؟ نیام تو بالکل خالی ہے شمشیر چھین لی گئی ہے اسے اپنے آپ میں اور سرکس کے شیر میں کافی مماثلت محسوس ہوی ـ
اس نے شرم و بےبسی کے سبب آنکھیں بند کرلی تبھی ذہن و دماغ کے پردے پر علوم و فنون میں اقبال مندی کے مناظر چلنے لگے، بغداد و فارس کی تجربہ گاہیں اور نئی نئی ایجادات کی چمک نے چشمِ تخیّل کو بھی خیرہ کردیا، اس نے اچانک آنکھیں کھول دی لیکن تاریکی اور اندھیرے کے سوا کچھ نظر نا آیا سوائے اس کے کہ روشنی یورپ نے چُرا لی ہے اور سرقہ کی ہوی اس روشنی سے نا صرف خوب فائدہ اٹھایا بلکہ اس روشنی کے چراغوں کو ٹیکنالوجی کا آفتاب بنا دیا…..
وہ اپنی داستان یاد کرکے ٹوٹ پھوٹ گیا…. کیا تو رہبر و رہنما تھا آج اپنی سستی و کاہلی اور رہزنوں کی شرارت کے سبب پس خوردہ کھانے پر مجبور ہوگیا، وہ پھر سے عظمتِ رفتہ کی بحالی کا طلبگار ہے تبھی تو اپنے حال پر ماتم کناں ہے، پر کیا اس تاریک رات میں جہاں اندھیروں نے ہرسمت ڈیرہ ڈال دیا ہے ایک جگہ سر جھکاکر بیٹھے اشک بہانے سے روشنی ہوجائے گی؟
اس نے صاف محسوس کیا کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اسے اپنی شمشیر اور گمشدہ روشنی کی تلاش پر ابھار رہا ہے…………….