بہتر روزگار کا جھانسہ دے کر فروخت کی گئی لڑکی کی داستان

1,626

ایک بار میری خالہ عید پر بنگلہ دیش آئیں اور انھوں نے میری والدہ سے کہا کہ وہ مجھے انڈیا لے جائیں گی اور نوکری دلوائیں گی تاکہ ہماری غربت دور ہو جائے۔ لیکن مجھے یہاں لا کر بیچ دیا گیا۔ روزانہ دس، دس لوگ میرے جسم کو نوچتے تھے۔‘

یہ ایک ایسی نابالغ لڑکی کے الفاظ ہیں جو بنگلہ دیش کی شہری تھیں اور انھیں حال ہی میں انڈیا کی ریاست گجرات سے واپس بنگلہ دیش بھجوایا گیا ہے۔ چونکہ وہ نابالغ ہیں اس لیے ہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے ہیں اور یہاں ان کے لیے فرضی نام سلمیٰ استعمال کیا جا رہا ہے۔سلمیٰ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے معلوم ہوا کہ ان کو کم عمری میں ہی زندگی کے انتہائی تلخ تجربات کو برداشت کرنا پڑا۔

لیکن پھر سلمیٰ کو گجرات میں ایک تنظیم کا سہارا ملا جس نے ان کی مدد کی۔ سلمیٰ، جو نوکری حاصل کرنے اور پیسہ کمانے کی کوشش میں غیر قانونی طور پر انڈیا میں داخل ہوئی تھیں، کا اس ادارے میں علاج ہوا جبکہ تنظیم نے سلمیٰ کی والدہ سے بھی ان کی ملاقات کروائی۔اب سلمیٰ گجرات چھوڑ کر بنگلہ دیش واپس چلی گئی ہیں لیکن کم عمری کے جسمانی اور ذہنی زخم شاید پوری عمر مندمل نہ ہو سکیں۔

گھر جانے سے پہلے انھوں نے بی بی سی گجراتی کو اپنی جو کہانی سنائی، وہ دل دہلا دینے والی ہے۔’خالہ نے کہا انڈیا جاؤں گی تو مجھے نوکری مل جائے گی‘غیرسرکاری تنظیم ’آنندن جاگرت مہیلا‘ کی صدر کے مطابق سلمیٰ کو ڈھائی سال قبل مقامی پولیس ان کے دفتر لے کر آئی تھی۔ پولیس کو سلمیٰ مقامی بس سٹینڈ کے قریب اکیلے اور بُری حالت میں ملی تھیں۔

جب وہ میرے دفتر آئی تو وہ خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھی رہتی تھی۔ ہم نے اس کا علاج کیا۔ آہستہ آہستہ اس نے بات کرنا شروع کی۔ جب اس نے اپنے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا تو ہم بھی حیران رہ گئے۔‘سلمیٰ کی یہ کہانی بنگلہ دیش سے شروع ہوتی ہے۔ انتہائی غربت میں رہنے والی سلمیٰ کو انڈیا میں رہنے والی ایک رشتہ دار، جن کو وہ خالہ کے نام سے پکارتی ہیں، نے جسم فروشی پر مجبور کیا۔

سلمیٰ نے بتایا کہ ’جب میری خالہ عید پر گھر آئیں تو انھوں نے میری والدہ کو بہت سے تحائف دیے۔ میں اور میری ماں بہت خوش تھے۔ انھوں نے میری ماں سے کہا کہ اگر میں اُن کے ساتھ انڈیا جاؤں تو مجھے نوکری مل جائے گی۔‘’آنٹی نے یہ بھی کہا کہ وہ انڈیا میں بہت پیسہ کماتی ہیں۔ انھوں نے میری والدہ کو بتایا کہ یہاں لوگ گھروں میں کام کر کے بہت پیسہ کماتے ہیں۔‘

’ہم نے سوچا تھا کہ کام ملنے سے ہمیں غربت سے نکلنے میں مدد ملے گی اور ہم نے ہاں کر دی۔‘سلمیٰ کی عمر اس وقت 15 سال تھی۔ ان کی خالہ غیر قانونی طریقے سے ان کو انڈیا لے آئی تھیں۔ سلمیٰ کا کہنا ہے کہ انڈیا آتے ہی ان کی خالہ کا رویہ بدل گیا۔

آنٹی نے سلمیٰ کو ’بیچ‘ دیا:سلمیٰ نے بتایا کہ انڈیا پہنچنے کے بعد ان کی خالہ نے کہا کہ ’تمہارے پاس پاسپورٹ نہیں ہے۔ تم یہاں غیر قانونی طور پر آئی ہو۔ جہاں میں کام دوں، وہاں جانا ہے ورنہ پولیس تمہیں جیل میں ڈال دے گی۔‘

سلمیٰ کو ہندی زبان بھی کم ہی آتی تھی۔ لیکن ان کو کسی حد تک اندازہ ہوا کہ ان کے لیے مشکل پیدا ہونے والی ہے۔سلمیٰ بتاتی ہیں کہ ’ایک دن خالہ مجھے ایک ہوٹل لے گئیں اور ایک آدمی سے میرا تعارف کرایا۔‘’میں نہیں جانتی کہ ان کے درمیان کیا بات چیت ہوئی، لیکن آنٹی نے کہا کہ مجھے انڈیا میں رہنے کے لیے اس آدمی کو پیسے ادا کرنا ہوں گے۔‘سلمیٰ کو اب یہ فکر بھی تھی کہ اگر ان کو تنخواہ نہیں ملی تو وہ اپنی ماں کو پیسے کیسے بھیجے گی۔

’بعض اوقات مجھے 18 مردوں کے ساتھ رات گزارنی پڑتی تھی‘

سلمیٰ کی پریشانیاں یہیں سے شروع ہوئیں۔ انھیں جلد ہی احساس ہوا کہ ان کو بیچ دیا گیا ہے۔پھر ہر رات کو ان کا ہی لین دین ہونا شروع ہو گیا۔ان خوفناک دنوں کو یاد کرتے ہوئے سلمیٰ کہتی ہیں کہ ’لوگ روز میرے جسم کو نوچتے تھے۔ کبھی مجھے 10، کبھی 18 آدمیوں کے ساتھ سونا پڑا۔‘’اس کے بدلے میں، مجھے صرف سونے کی جگہ اور کھانا ملتا تھا۔ کبھی کبھی گاہک مجھے ٹپ دیتے اور میرے پاس بس وہی بچتا تھا۔‘انھوں نے بتایا کہ ’آجر مجھے بتاتا تھا کہ میری رقم میری ماں کو بھیج دی جاتی ہے۔‘ لیکن سلمیٰ کو بعد میں پتہ چلا کہ ان کی ماں کو تو کبھی پیسے نہیں ملے۔

جسم کی تجارت کے کاروبار میں ان کا دم گھٹ رہا تھا۔ وہ فرار ہونا چاہتی تھیں لیکن وہ ایک جال میں پھنس چکی تھی کیوں کہ ان کو یہ خوف بھی رہتا تھا کہ کہیں پولیس ان کو پکڑ نہ لے۔لیکن ایک دن سلمیٰ کو وہ موقع مل گیا جس کا ان کو انتظار تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک دن ہوٹل میں کوئی گاہک نہیں آیا۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ہوٹل سے بھاگ نکلی اور چھپتے چھپتے بس سٹینڈ پہنچ گئی۔‘اچانک انھوں نے پولیس والوں کو دیکھا تو وہ بتاتی ہیں کہ ’میں پولیس سے بچنے کے لیے چھپ گئی لیکن ارد گرد لوگ سمجھے کہ میں چور ہوں اور انھوں نے مجھے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔‘

پولیس نے سلمیٰ کو پکڑا تو سلمی نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ لیکن ان کی حالت دیکھ کر پولس انھیں مہیلا آشرم لے گئی۔بہت سی پریشان حال خواتین اس ادارے میں رہتی ہیں جہاں انھیں خود انحصار بننے میں مدد کی جاتی ہے۔
اس ادارے میں اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے سلمیٰ کہتی ہیں کہ ’یہاں آ کر مجھے ایسا لگا جیسے میں گھر آ گئی ہوں، لیکن پھر بھی مجھے مسلسل پولیس سے ڈر لگتا تھا۔‘

’لیکن یہاں کی انتظامیہ کی محبت بھری طبیعت کو دیکھ کر میں نے آہستہ آہستہ انھیں اپنے بارے میں بتایا، اپنا دردناک تجربہ بیان کیا۔ میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ میں گونگی نہیں ہوں، میں پولیس کے ڈر سے کچھ نہیں کہہ رہی تھی۔‘اس تنظیم کے منتظمین نے سلمیٰ کو اس کی تاریک زندگی میں امید کی کرن دکھانے کی کوشش کی۔ یہاں ایک ماہر نفسیات نے اُن کی کاؤنسلنگ اور علاج کیا۔
انسٹیٹیوٹ کی منیجر آشابین نے کہا کہ ’سلمیٰ کی اصل حالت جاننے کے بعد، ہم نے پولیس، حکومت اور بنگلہ دیش کے سفارت خانے کو مطلع کیا اور اسے گھر بھیجنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔‘

’ان کی مدد سے، ہم اس کی ماں سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ماں کو بیٹی کی افسوسناک حالت کا علم ہوا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے اپنا پاسپورٹ بنوایا۔‘سلمیٰ دو سال تک اس تنظیم میں رہیں اور انھوں نے کڑھائی، سلائی اور مصنوعی زیورات بنانے جیسے ہنر سیکھے۔

سلمیٰ نے اپنے تیار کردہ سامان کی فروخت سے دو لاکھ روپے کمائے۔ جب سلمیٰ اپنی والدہ کے ساتھ بنگلہ دیش روانہ ہوئیں تو تنظیم نے سلمیٰ کو ان کی کمائی کے دو لاکھ روپے بھی دیے۔ادھر سلمیٰ کی خالہ کو بھی گرفتار کر کے بنگلہ دیش لے جایا گیا ہے۔آج سلمیٰ اپنے گاؤں پہنچ چکی ہیں۔ گجرات کی تلخ یادیں یہاں ملنے والے پیار اور مدد سے کسی حد تک دھندلا گئی ہیں۔( بہ شکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)